16 Mar 2018

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!
محمد یاسین جہازی
صحابہ کی محفل جمی ہوئی ہے۔ حضور پر نور محمد عربی ﷺ کی موجودگی اس محفل کی رونق و برکت میں دوبالگی پیدا کر رہی ہے۔ اسی دوران ایک شخص شریک محفل ہوتے ہیں۔ کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہیں، بال بہت کالے ہیں۔ محفل میں موجود ہر شخص کے لیے اجنبی ہے ، کیوں کہ وہ وہاں کا رہنے والا نہیں ہے اور کہیں سے سفر کرکے آیا ہے، لیکن سفر کے اثرات اس پر بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہے ہیں۔ وہ بلا تکلف اس مجلس میں شریک ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کے مبارک گھٹنہ سے اپنا گھٹنا ملا کر بیٹھ جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو نبی اکرم ﷺ کے مبارک رانوں پر رکھ دیتا ہے اور پھر نبی اکرم ﷺ سے کئی سوالات کرتے ہیں ۔ پہلا سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
یا محمد اخبرنی عن الاسلام۔
ائے محمد مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ جواب دیتے ہیں کہ
الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ، و تقیم الصلاۃ و توتی الزکوٰۃ، و تحج البیت ان استطاع الیہ سبیلا۔
یہ جواب سن کر اجنبی کہتا ہے کہ صدقتَ ۔ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ حاضرین مجلس کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سائل ہے کہ خود ہی پوچھ رہا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھر وہ اجنبی دوسرا سوال کرتا ہے کہ
اخبرنی عن الایمان ۔
مجھے ایمان کے متعلق بتائیے۔ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
کہ ان تومن باللہ و ملائکتہ، و کتبہ و رسلہ ، والیوم الآخر، و تومن بالقدر خیرہ و شرہ۔ 
اجنبی جواب سن کر تصدیق کرتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ
فاخبرنی عن الاحسان۔
مجھے یہ بھی بتایا جائے کہ احسان کیا ہے؟ نبی اکرم ﷺ جواب دیتے ہیں کہ 
ان تعبداللہ کانک تراہ، و ان لم تکن تراہ، فانہ یراک 
کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے، تو خدا تو تم کو دیکھ ہی رہا ہے۔ اجنبی نے پھر سوال کیا کہ
اخبرنی عن الساعۃ
کہ مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں مجھے آپ سے زیادہ معلومات نہیں ہیں ، اس پر اجنبی نے سوال کیا، تو اچھا پھر کم از کم علامت ہی بتادیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
ان تلد الامۃ ربتہا، و ان تریٰ الحفاۃ العراۃ العالۃرعاء الشاء یتطاولون فی البنیان ۔
یعنی اس کی ایک علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالک اور آقا کو جنے گی ۔ ایک اور علامت یہ ہے کہ جن کے پاوں میں جوتا تک نہیں، جن کو تن ڈھکنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ، جو بکریاں چراکر گذارا کرتے ہیں، وہ لوگ بھی بڑی بڑی عمارتیں بناکر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کے راوی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اجنبی شخص چلا گیا، تو تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یا عمر ا تدری من السائل؟ حضرت عمرنے جواب دیا کہ اللہ و رسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمھیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔
اس حدیث پاک میں پانچ سوالات و جوابات ہیں۔ (۱) اسلام کیا ہے۔ (۲) ایمان کیا ہے۔(۳) احسان کیا ہے۔ (۴) قیامت کب آئے گی۔ (۵) قیامت کی علامتیں کیا ہیں۔
حدیث کے ان پانچوں جزئیات کی تشریح اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے ، اس لیے آج کی معروضات میں تمام جزئیات کو چھوڑ کر صرف ایک جزئیہ: احسان کے متعلق مختصراعرض کیا جائے گا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ سے تیسرا سوال یہ کیا تھا کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کیا ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ان تعبدا للہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک کہ خدائے متعال کی عبادت و بندگی اس طرح کرو ، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔
ہمارے محاورے میں احسان کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا جاتا ہے ، لیکن حدیث شریف اور قرآن پاک میں وارد یہ لفظ کسی اور معنی اور ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
بلیٰ من اسلم اجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ 
و من احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن 
اس کی وضاحت ایک مثال سے اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک ملازم اپنے مالک کے آفس میں کام کرتا ہے ۔ جب مالک سامنے ہوتا ہے تو اس ملازم کے کام کرنے کا انداز اور طرز عمل اس سے مختلف ہوتا ہے جب کہ مالک اس کے سامنے نہیں ہوتا۔ ملازم اپنے باوس کی موجودگی میں جس دھیان ، محنت اور خوب صورتی سے کام کرتا ہے ، وہ مالک کی عدم موجودگی میں نہیں کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی بجالائے تو اس تصور و دھیان کے ساتھ بجالائے کہ خدائے بزرگ و برتر حاضر و ناظر ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اس کی نگاہ میں ہے ۔ وہ ہم کوہر لحظہ دیکھ رہا ہے۔ جب اس تصور کے ساتھ کوئی عبادت کی جائے گی تو آپ کے اندر ایک عجیب کیفیت اور خاص شان پیدا ہوگی جو اس صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جب اس تصور سے خالی ہوکر کوئی عبادت انجام دی جائے۔
مثال کے طور پر ہم حج کریں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، تو ان تمام اعمال کو انجام دہی کے وقت ہمارا ذہن اس تصور سے خالی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے سامنے اللہ موجود ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تصور قائم نہ کرسکیں تو یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ اللہ تو ہم کودیکھ ہی رہا ہے۔۔ اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔نماز خالص عبادت ہے۔ نماز پڑھنے کی حقیقی لذت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہم احسان کی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ادھر نماز کی نیت باندھی اور ادھر دنیا کے تمام تفکرات سامنے آگئے ۔ دن بھر کی جو باتیں ہمیں کسی وقت یاد نہیں آتیں، وہ نماز کی نیت باندھتے ہی ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ہماری زبانیں تو نماز کے اذکار میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ہمارا ذہن و دماغ بالکل بھی نماز میں حاضر نہیں رہتا۔اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے، لیکن نماز کی جو برکات و انوار ہیں، وہ ہمیں حاصل نہیں ہوتے۔ نماز کے فوائد کے حوالے سے قرآن کا اعلان ہے کہ 
ان الصلاۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی (
نماز بے حیائی ، منکرات، ظلم و جبر اور گناہوں سے روک دیتی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی بھر نماز پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہماری نماز کسی برائی کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا نہیں کرتے ۔ جس دن ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا کرنے لگیں ، اسی دن ہماری نماز بالیقین تمام گناہوں سے ہمیں روک دے گی۔
اس موقع پر ہم عذر کرتے ہیں کہ اجی کیا کریں ہم کتنی بھی کرشش کریں ، پھر بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نماز کو تفکرات سے آزاد ہوکر ادا کرسکیں۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم نماز میں نہیں ہوتے، تو کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کے باوجود یاد نہیں آتی اور جوں ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، تو زندگی کی تمام بھولی بسری یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اور ہمارا ذہن نماز سے نکل کر زمین و آسمان کی سیر کرنے لگتا ہے ۔ 
یہ ناچیز بھی اس مصیبت میں گرفتار تھااور اس سے نجات پانے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا شاہ ابرارالحق نور اللہ مرقدہ کو ایک خط لکھا اور اس کا علاج پوچھا، ان کی طرف سے جو جواب آیا، وہ جواب پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ بھی اسے اختیار کرکے اس مصیبت سے نجات پاسکتے ہیں۔ جواب یہ تھا کہ جب ہم نماز کی نیت باندھ لیں، تو تکبیر تحریمہ کے بعد جو اذکار اور قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں، ان چیزوں کے متعلق سوچنا شروع کردیں۔ اور جس مرحلہ سے گذریں، اس سے آگے کی پڑھنے والی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر نیت باندھنے کے بعد جس وقت ہم ثنا پڑھیں، تو اس وقت یہ سوچیں کہ آگے ہمیں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے۔ جب سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیں،تو اس وقت یہ سوچنا شروع کریں کہ اس کے بعد ہمیں کون سی سورۃ کی تلاوت کرنی ہے۔ سورۃ تلاوت کرتے ہوئے رکوع کے بارے میں، رکوع میں سجدہ کے متعلق ، اسی طرح ہر اگلے رکن کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ اس طریقے سے آپ کا ذہن نماز کے ارکان میں گردش کرتا رہے گا اور باہر کے تفکرات شامل نہیں ہوسکیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اچھی طرح وضو نہ کرنے کے سبب نماز میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کے ذہن کو بھٹکا دیتا ہے ، اس لیے خشو ع و خضوع اور تمام لایعنی فکروں سے آزاد نماز پڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اچھی طرح سے وضو کریں اور انتہائی توجہ اور کامل اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کریں اور ذہن بھٹکنے کی صورت میں درج بالا ترکیب پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

2 Mar 2018

کیاہم زندہ ہیں؟

کیاہم زندہ ہیں؟
اپنے ضمیر سے ایک سوال: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علمائے ہند
اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ زندہ ہیں؟ تو بالیقین اس سوال پر آپ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ہم آپ سے محو کلام ہیں، کیا یہ زندہ ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے! ۔ لیکن اس کے جواب میں یہ سوال کرلیا جائے کہ اس زندگی پر انسان و جانورمیں پھر کیا امتیاز ہوگا؟ تو یقیناًسوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا واقعی ہم زندہ ہیں؟ اور ہمارا تعلق ایک زندہ قوم سے ہے؟
آئیے ایک فرد اور ایک قوم ہونے کی حیثیت سے زندہ ہونے کی علامات کی روشنی میں اپنے ضمیرسے کچھ سوالات کرتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کے جوابات مثبت ہوں گے ، تو ہمیں خود کو اور اپنی قوم کو زندہ ہونے پر فخرکا احساس کرنا چاہیے اور اگر ان کے جوابات میں نفی میں ملتے ہیں، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
پہلا سوال
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، تو اس اعتبار سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ایمان محفوظ بھی ہے یا صرف رسمی مسلمان ہیں۔ اگر ہمارا ایمان محفوظ ہے، تو آئیے تحفظ ایمان کے پیمانے پر اپنے ایمان کو جانچ کردیکھتے ہیں اورمعلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کتنے حقیقی مسلمان ہیں اور کتنے رسمی مسلمان۔
146146ہمارا ایمان محفوظ ہے145145 اس کو جانچنے کے لیے قرآن و احادیث میں مختلف پیمانے بیان کیے گئے ہیں ، ہم محض ایک دو پیمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(۱) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم (الزمر ، آیۃ نمبر ۲۳)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے یہ کہ جب لوگوں کے سامنے کلام الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے، تو کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، اور بدن کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا ہوجاتا ہے۔
اب خود کا جائزہ لیجیے کہ قرآن کی شکل میں ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پید اکرنے کے لیے جوکلام الٰہی ہمیں دیا گیا ہے، ہم اس کی کتنی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور اگر تلاوت کرتے ہیں، تو کیا ہمارے دل پر اس کلام کی عظمت کا رعب پیدا ہوتا ہے؟ ۔ ہم ہر نماز میں امام صاحب کی قرات کے توسط سے کلام الٰہی سنتے ہیں، اسے سن کر کیا ہمارے دل و ذہن پر کوئی خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ؟ اگر آپ کا ضمیر اس کا جواب ہاں میں دے، تو آپ کہیے الحمد للہ ، سبحان اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم آپ کے ساتھ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ اس کا جواب146146 نہیں 145145ہے، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے، ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ، ہمارے اندر ایمان کی کوئی طاقت موجودنہیں ہے۔ ہم ایمان کے اس طاقت سے محروم ہیں، جس کے سامنے پہاڑ کی بلندی اور دریاوں کی طغیانی تھم جایا کرتی تھی اور جسے دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا۔
(۲) دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، یہ سب جانتے ہیں، لیکن ہماری آبادی کے تناسب سے مسجد میں مرد نمازیوں کی اور گھروں میں عورت نمازیوں کی تعداد کتنی ہے؟ ہم صرف اپنے اپنے گھر کا جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ ایک پرسنٹ بھی نمازی نہیں ہے۔ اس جائزہ میں اگر آپ خود کو اور اپنے گھر کو اس معیار پر پاتے ہیں کہ آپ کے گھر میں سبھی مرد و عورت پنج وقتہ نمازی ہیں، تو آپ کہیے کہ الحمد اللہ، سبحان اللہ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و اکرام آپ کے ساتھ اور آپ کے اہل خانہ کے ساتھ ہے ۔ اور اس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بحیثت فرد ابھی ایک زندہ شخصیت کا حامل ہوں، لیکن اگر خدا نخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے ، اور آپ خود اور گھر کے سبھی حضرات نماز کی توفیق سے محروم ہیں،تو یاد رکھیے آپ کو زندہ شخص کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور آپ کا تعلق جس قوم سے ہے، اس قوم کی اکثریت کا یہی حال ہے، تو وہ قوم بھی زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتی۔
دوسرا سوال
ہمیں صاحب ایمان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہم مذہب اسلام کے فالوور ہیں، لہذا اسی سے دوسرا سوال یہ نکلتا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے لیے کیا کرتے ہیں؟
اس سوال پر اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ہم اسلام کے لیے کر کیا سکتے ہیں،تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کے تحفظ کے لیے پانچ بڑے ادارے ہیں: (۱) مدارس و مکاتب۔ (۲) مساجد۔ (۳) خانقاہیں۔ (۴) ملی تنظیمیں۔ (۵) تبلیغی جماعت۔تو ہندستان میں اسلام کے تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ، ان پانچوں اداروں سے اپنی وابستگی اور جان مال اور وقت کی قربانی پیش کریں۔
تو اب آپ اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ آپ ان اداروں سے کس درجہ قلبی لگاو اور تعلق رکھتے ہیں اور ان کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے جانی و مالی اور وقت کی کتنی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ الحمد اللہ میں ان سبھی اداروں سے وابستہ ہوں، میں نے خود یا میرے بچے نے مدرسہ میں بھی وقت لگایا ہے، مسجد سے بھی رشتہ مضبوط ہے، جماعت میں بھی وقت لگاتا ہوں اور ملی اداروں کی آواز پر جان مال وقت سب کچھ قربان کرتا رہتا ہوں، کبھی کسی ادارے کو نہ تو چندے سے محروم رکھتا ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے تقاضے کے وقت پیچھے ہٹتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر پوری قوم کی یہی حالت ہے تو آپ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ الحمد اللہ میری پوری قوم زندگی کی اس صفت سے متصف ہے، لہذا ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
لیکن اگر ضمیر کا جواب یہ ہوتا ہے کہ نہ تو میں خود اور نہ ہی میرے بچے مدارس و مساجد اور خانقاہوں سے جڑے ہیں اور نہ ہی کبھی جماعت میں وقت لگایا ہے، جب بھی جماعت والے کہتے ہیں کہ بھائی رکیں، دین کی بات ہوگی، تو ہم اس جملہ کو سنتے ہیں اچھی جگہ سے شیطان کے بھاگنے کی طرح بھاگتے ہیں، اور کسی ملی تنظیم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، تو پھر آپ زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی یہی کیفیت ہے، تو وہ قوم بھی زندگی کی نعمت سے محروم ہے۔
تیسرا سوال
اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں ممالک میں سے ہندستان کو ہمارے لیے منتخب کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارا یہ ملک گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے لبریز ہے۔ ہمیں اس سیکولر ملک میں بہت سے ایسے اختیارات حاصل ہیں، جو بہت سے اسلامی ملکوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس پر خدائے بررگ و برتر کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک میں پیدا فرمایا ہے، جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے، تو اس تعلق سے داعی امت کا فرد ہونے کی بنیاد پر ہمارے اوپر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، جس میں ایک فرض یہ بھی ہے کہ اس ملک کے تحفظ اور سالمیت کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ جمہوریت میں کسی بھی قوم اور پارٹی کا وقار جماعتی طاقت میں مضمر ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم یا پارٹی اجتماعیت کی طاقت سے محروم ہے، تو اس کا نام ونشان مٹ جانا طے ہے، اس لیے ہندستان میں مسلمانوں کے تحفظ کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ مسلم قوم ہونے کی حیثیت سے کسی متحد و مشترک پلیٹ فارم سے وابستہ ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر ڈیڑھ اینٹ کی عمارت بنانے سے کوئی وجود بننے والا نہیں ہے۔ اس حقیقت کے مد نظر تیسرا سوال یہ ہوگا کہ ہم ہندستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟۔
اگر آپ کا ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ ملی تشخص اور اسلامی امتیازات کو تحفظ فراہم کرنے والی ملی جماعتوں سے میں وابستہ ہوں اور ان کی آواز پر ہمہ وقت پابہ رکاب رہتا ہوں، خواہ وہ جمعیۃ علماء ہند ہو، یا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو، یا پھر کوئی اور ملی تنظیم ہو، ان کے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مردانہ وار عملی میدان میں کود پڑتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ، میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی اجتماعی شعور کا یہی عالم ہے ،تو آپ دعویٰ سے کرسکتے ہیں، الحمد اللہ میری پوری قوم زندہ ہے ۔ لیکن اگر معاملہ اس کا الٹا ہے، آپ کسی بھی جماعت سے وابستہ نہیں ہے، آپ تنہائی کے شکار ہیں ، یعنی آپ کے اندر قومی اتحاد اور ملی اجتماعیت کا شعور نہیں ہے، تو یاد رکھیے کہ پھر آپ بھی زندہ نہیں ہیں اور آپ کی قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
چوتھا سوال
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ فرد واحد کی طرح ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والی قوم الگ الگ جغرافیائی حدود میں تقسیم ہونے کے باوجود جسم واحد کی طرح ہے، اور یہ اتحاد ہمارے کلمہ کی تلقین ہے، لہذا اگر دنیا کے ایک کونے میں بسنے والے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے مسلم بھائی کے دل میں اس کا ٹیس محسوس ہونا ہماری ایمانی نسبت کی روح ہے۔ اس تناظر میں چوتھا سوال یہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں مسلمان ظلم و زیادتی کے شکار ہیں، ان پر بموں کی برسات ہورہی ہے، ان کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں، فلسطین کا قضیہ آپ کے سامنے ہے۔ مصر کے حالات سے بھی آپ بہ خوبی واقف ہیں اور آج شام میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے؟ تو ان ناگفتہ بہ حالات میں مسلم بھائیوں کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان کے جسم سے نکلنے والے خون کے پھوارے سے آپ کا خون خشک ہوتا ہے؟ کیا معصوم بچوں اورمظلوم عورتوں کی چیخیں آپ کے لیے صدائے درد بنتی ہیں؟ کیا بوڑھوں کی درماندگی آپ کے ذہن و دماغ کی چولیں ہلارہی ہے اور آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب کب تک؟ اب آگے کچھ اور نہیں ہونے دوں گا۔ اگر آپ کا ضمیر آپ کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ لبیک یا فلسطین، لبیک یا سیریا، ائے روئے زمین کے مظلمو! ہم ابھی زندہ ہیں۔ اور میرے جیتے جی ظلم کا سلسلہ اب اور آگے نہیں بڑھ سکتا، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ ابھی آپ کا ضمیر زندہ ہے، آپ کے اندر انسانیت کی رمق باقی ہے اور آپ ایک زندہ شخص ہیں۔ اور اگر پوری قوم کی یہی کیفیت ہے تو آپ کا یہ دعویٰ حقیقت کا اعلان ہوگا کہ آپ کی قوم بھی زندہ ہے۔ لیکن اگر معاملہ ایسا نہیں ہے، ظلم کی خبریں سن کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، مظلوموں کی چیخوں سے ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا، خاک و خون میں غلطاں و پیچاں معصوموں کو دیکھ کر میری آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ خون کے پھوارے چھوڑتے جسموں کا منظر میرے شعور کو دعوت عبرت نہیں دیتا، تو آپ تسلیم کریں یانہ کریں، آپ کے اندر زندگی کی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ اور اگر پوری قوم اسی لاشعوری میں محو خواب ہے، تو وہ قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کوئی قوم زندہ ہوتی ہے، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی، وہ جہاں سے گذرتی ہے ،عروج اور اقبال مندی اس کے قدم چومنا فخر سمجھتی ہے۔ایسی قوم کو نہ تو زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلامی کی زنجیریں اسے روک سکتی ہے،پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ ہوائے حریت کی طرح پورے عالم پر چھا جاتی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والی سبھی مخلوق اس کے زیر نگیں ہوتی ہے، اس کے حمد و ثنا کے پھریرے اڑتے ہیں اور اس کی ہر ادا کی تقلید شرافت و نجابت کا معیار قرار پاتی ہے۔
لیکن جو قوم مردہ ہوجاتی ہے، تو محکومیت ہی اس کا نصب العین ہوتی ہے، اس کی حیثیت فٹ بال کی مانند ہوتی ہے، جو جب چاہتا ہے لات ماردیتا ہے، اور اسے لات کھانا پڑتی ہے، لیکن زندگی کا حق پھر بھی رکھتی ہے، کیوں کہ وہ صرف جسم کے اعتبار سے غلام ہوتی ہے، لیکن فکری غلامی بھی مسلط ہوجائے، تو پھر اس قوم کو ہلاکت و بربادی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی، کیوں کہ فکری غلامی اور مایوسیت کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔
اس لیے ہمارے قائدین اور اکابرین بار بار ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر چہ زندہ ہونے کے جتنے سوالات ہیں، ان سب کے جوابات نفی میں ہیں، لیکن پھر بھی اگر ہم ہمت نہ ہاریں، ہم قنوطیت کے شکار نہ ہوں، اور مایوسی کو اپنے دل کے اندر جگہ نہ دیں، تو ان شاء اللہ ہمیں کوئی بھی قوم اور پارٹی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ وقتی طور پر حالات آسکتے ہیں، لیکن ہم ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوجائیں، یہ نا پہلے ہوا تھا اور نہ ابھی تک ہوا ہے اور ان شاء اللہ نہ ہونے دیں گے۔ ہم عزم و حوصلے سے جینے کا وہ سلیقہ رکھتے ہیں، جسے دیکھ کر مردہ شخص بھی زندہ ہوجاتا ہے ، تو پھر یہ عارضی حالات کچھ بھی نہیں ہیں، ہم اسے ٹھوکروں سے اڑا سکتے ہیں۔ اور پھر ان شاء اللہ وہ صبح ضرور آئے گی، جب ہماری عظمت رفتہ ہماری قدم بوسی کے لیے ہمارے منتظر ہوگی۔

12 Dec 2017

سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی


سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ: 9871552408
Defence، حفاظت اور بچاو تمام مخلوقات کا نیچر ہے۔ ہر ایک مخلوق خواہ وہ انسان ہو یا جانور؛اپنا بچاو اور دفاع کے ہنر سے واقف ہوتی ہے، کوئی بھی خطرہ درپیش ہو، اس سے اپنے آپ کو بچانے اور محفوظ کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ آپ نے یہ منظر بارہا دیکھا ہوگا کہ چوہے بلی کی آہٹ سن کر ہی جان بچانے کے لیے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ کبھی آپ کا اور سانپ کا آمنا سامنا ہوجائے، تو جس طرح سانپ اپنی جان بچانے کے لیے راہ فرار تلاش کرتا ہے، اسی طرح آپ بھی اس کے خوف سے سر پر پاوں رکھ کر بھاگتے ہیں۔ المختصر اپنی جان کی حفاظت کرنا، ہر ایک مخلوق کا نیچر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی حفاظت کے آلات خود انھیں کے جسم کا ایک حصہ اور جز بنادیا ہے۔ آپ ہاتھی کو دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی حفاظت کے لیے طاقت اور سونڈ دے دیا ہے ، شیر کو خوں خوار پنجہ ، کتے کو نوکیلے دانت، سانپ اور بچھو کو زہر آلود ڈنک،گائے، بیل ، بھینس کو سینگ ، پرندوں کو بے قید ہوا میں اڑبھاگنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ ایک ہی مخلوق میں الگ الگ مقامات کے سرد و گرم موسم کے اعتبار سے جسم و جثہ میں جزوی تبدیلی ۔ اس کے بالمقابل انسان کو قدرت کاملہ نے اس طرح کا کوئی بھی ہتھیار اس کے جسم کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ انسان کے بدن پر پنکھ یا روئی دار کھال نہیں ہوتے کہ جسے وہ سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کرے۔ اس کے پاس خوں خوار پنجے اور نوکیلے دانت بھی نہیں ہیں کہ ان سے اپنے تحفظ کا کام لے اور نہ ہی ہاتھی کی طرح سونڈ، گائے کی طرح سینگ ہیں کہ انھیں بطور اوزار کام میں لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کے مقابلے میں انسان کو عقلی سلیم عنایت فرمادی ہے ، جسے وہ استعمال کرکے ہاتھی سے زیادہ طاقت ور، خوں خوار پنجوں سے زیادہ تیز، نوکیلے دانت سے زیادہ نوکیلے ہتھیار اور زہر آلود ڈنک سے زیادہ خطرناک زہر تیار کرکے اپنی حفاظت کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا طریقہ کار یکسر مختلف ہوتا ہے۔
آفتیں تین طرح کی ہوتی ہیں: (۱) آفات سماوی۔ (۲) آفات انسانی۔ (۳) آفات شیطانی۔ انسانوں کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، وہ صرف پہلی دونوں آفتوں کی شکار ہوتی ہیں۔ تیسری قسم یعنی آفات شیطانی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی لیے آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی کتے ، بلی یا گائے بیل پر بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ آفت شیطانی کی زد میں صرف حضرت انسان ہی آتے ہیں، ساتھ ہی انسان آفات سماوی اور آفات انسانی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ 
تینوں آفتوں سے بچنے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور ہتھیار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آفت و مصیبت سے تحفظ کے وقت دوسری آفت سے بچاو کے ہتھیار کام آجاتے ہیں، لیکن کچھ آفتیں ایسی بھی ہیں، جہاں دوسرے ہتھیاربالکل بھی کام نہیں آتے، اس سے بچاو کے لیے مخصوص ہتھیار ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ آئیے ذیل کی سطروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ تینوں قسم کی آفتوں کے لیے کیا کیا ہتھیار ہیں۔
طوفان، آندھی، سیلاب، زلزلہ؛ آفات سماوی ہیں، ان سے بلا استثنا سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں۔ زہریلے بم پھوڑ دینا، فسادات برپا کرنا، ایک قوم کا دوسری قوم سے برسرپیکار ہونا، ناحق کسی کو مار ڈالنا، چوری ، گالم گلوچ اور اس قسم کی دیگر حرکتیں آفات انسانی کی مثالیں ہیں۔ ان آفتوں میں سے بعض سے تو انسان جانور سمیت سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں، جس کی مثالیں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بم ہیں۔ اس بم کے گرانے کے بیسیوں سال بعد بھی نئی نسل اس کے مہلک اثرات سے متاثر ہوتی رہی اور وہ گونگے، بہرے اور لنگڑے پیدا ہوتی رہی۔ درج بالا دونوں آفتوں سے حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سلیم کا استعمال کرے اور ان آفتوں کے اسباب پر غور کرکے، اپنے اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا سامان فراہم کرے۔ مثال کے طور پر بار بار سیلاب آجاتا ہے ، تو اس سے تحفظ کے لیے پانی کے سرچشمہ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے، وہاں باندھ لگائے اور اس قسم کی جو بھی تدبیریں ہیں وہ اختیار کی جائیں۔ اسی طرح آفات انسانی کے طور پر بار بار دو ملکوں میں جنگ کے خطرات منڈلاتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو معاہدہ امن پر مجبور کیا جائے۔ المختصر انسانی حکمت عملی کے ذریعے اس قسم کی مصیبتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔البتہ تیسری قسم کی جو آفت ہے، اس سے بچنے کے لیے کوئی بھی انسان کا مصنوعی ہتھیار کارگر نہیں ہوتا۔ اس سے حفاظت کے لیے ایک دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر کسی پر شیطان سوار ہوجاتا ہے، تو آپ یہ بتائیے کہ اسے چاقو، ڈنڈا یا ایٹم بم دکھانے سے وہ بھاگ جاتا ہے؟ ۔ بالکل نہیں بھاگتا؛ بلکہ اسے بھگانے کے لیے دوسری تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ وہ تدابیر پیش خدمت ہیں۔
کلام پاک میں ہے کہ 
لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونہُ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ ( سورۃ الرعد، آیۃ: ۱۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو بحکم الٰہی اس کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں۔ 
جس طرح بندوں کے اعمال پر نگہبانی کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں؛ ایک دائیں، دوسرا بائیں۔ دایاں والا نیکیاں لکھتا ہے اور بایاں والا برے اعمال رقم کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کو ہر قسم کی آفتوں سے بچانے کے لیے ہر وقت دو فرشتے ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک فرشتہ سامنے ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ اس کے پیچھے۔ اس طرح گویاہمہ وقت چار فرشتے انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر یہ فرشتے انسانوں کی حفاظت نہ کریں، تو شیطان انسان کا اس قدر دشمن ہیں کہ فوری طور پر اس کو ہلاک کردیں۔ 
آج حادثات اور آفتوں کا دور دورہ ہے۔ اگر ایک شخص صبح کا گھر سے نکلا ہوا، شام کو صحیح سلامت گھر واپس آجائے، تو اسے سجدہ شکر بجالانا چاہیے۔ ان میں جہاں آفات سماوی اور آفات انسانی ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں، وہیں آفات شیطانی بھی تعاقب کرتی رہتی ہیں، اول الذکر دونوں آفتوں سے تحفظ کا طریقہ آپ نے پڑھ لیا ، شیطانی آفتوں سے حفاظت کا طریقہ چوں کہ ان طریقوں سے مختلف ہے ، اس لیے یہاں پر احادیث کی روشنی میں چند تدبیریں لکھی جارہی ہیں۔
یوں تو احادیث میں آفتوں اور شیطانی اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے دعائیں موجود ہیں، لیکن بہت ہی مختصر اور جامع دو تین دعائیں یہ ہیں:
۱۔ ہر صبح و شام فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں کہ 
بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء ، وھو السمیع العلیم۔
۲۔ تین تین مرتبہ سورہ اخلاص اور سورہ معوذتین۔
پابندی کے ساتھ اگر یہی دونوں اعمال کیے جائیں، تو نبی اکرم ﷺ کی زبانی یہ وعدہ ہے کہ اسے جہاں آفات سماوی و انسانی سے نجات مل جائے گی، وہیں شیطان بھی اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہمیں سرور کائنات کے ارشادات پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے، آمین۔

7 Dec 2017

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا، چیزوں کی شناخت ان کی ضد والی چیز سے ہوتی ہے۔ شناخت میں اس کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے مد مقابل کی چیز سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں روشنی کی صحیح قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب ہم کبھی کسی سخت تاریکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس اصول سے ایک اور اصول وابستہ ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ علاج بالضد، یعنی کسی چیز کا علاج اس کے اپوزٹ والی چیز سے کیا جاتا ہے، مثلا یہ اگر آپ کو سردی لگتی ہے تو گرمی پیدا کرنے والے سامان کا استعمال کرتے ہیں ، جب گرمی کا موسم آتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے اے سی، کولر، فرج وغیرہ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول فطری تقاضوں کی ترجمانی پر قائم ہے، اور مذہب اسلام چوں کہ دین فطرت کہلاتا ہے، اس لیے اس اصول کی کرشمہ سازیاں ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں اس کی مثا لیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسان کے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اچھے اور ثواب پیدا کرنے والے اعمال۔ دوسرے برے اور گناہ والے اعمال۔ ان دونوں عملوں کی اپنے اپنے مزاج کے اعتبارسے الگ الگ خصوصیات ہیں۔ نیک اعمال کا مزاج نرم اور سرد ہے ، جب کہ برے اعمال کا مزاج گرم اور ہیجان خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان اعمال کا تذہ کرتے وقت ایسا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے،جن سے ان کے مزاج کی طرف واضح اشارہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(النساء، آیۃ: ۱۰، پ۴)
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم میں جلیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مال حرام گرچہ دنیا میں کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہو، عالم آخرت میں اس کی تاثیر اور اس کا مزاج گرم ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ صبر کا مزاج اس دنیا میں بہت کڑوا ہے، لیکن آخرت میں یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
وَالصَّدَقَۃ تُطْفیءُ الْخَطیءۃکمَا یُطْفیءُ الْمَاءُ النَّارَ(مسند الشھاب القضاعی،ص۹۵) صدقہ گناہ کو ایسے ٹھندا کردیتا ہے جیسے کہ پانی آگو کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ 
إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے،لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کرلے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ میں دو خاص وصف ہیں : ایک گرمی اور دوسرا علو، یعنی اوپر چڑھنا۔ اس حدیث شریف کی رو سے غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اس لیے غصہ کا مزاج آگ ہے۔ اسی لیے غصہ ہونے کو محاورہ میں آگ بگولہ ہونا بولا جاتا ہے ۔ تو جس طرح آگ کی دو خاص وصف ہیں اسی طرح اس مزاج کے حامل غصہ میں بھی یہ دونوں وصف ہوں گے، یعنی گرمی اور علو۔ گرمی کے لحاظ سے نبی اکرم ﷺ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ۔ اور علو کے لیے یہ فرمایا کہ إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، تو اگر وہ کھڑا تھا تو بیٹھ جائے، غصہ ختم ہوجائے گا، لیکن اگر بیٹھنے سے غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے معمول میں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں ثنا کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا، کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ( صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب التعوذ من شر الفتن و غیرھا)
ائے اللہ ہمارے گناہوں کو برف اور پانی سے اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح دھو دے جس طرح کہ میلے سپید کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔
جس طرح اعمال کی یہ دو خاصیتیں ہیں، اسی طرح اعمال کے درجے بھی دو ہیں: ایک ہے کبیرہ،دوسرا ہے صغیرہ۔ کبیرہ کے معنی ہے بڑا۔ اور صغیرہ کے معنی ہے چھوٹا۔ اس کو اعمال کے ساتھ جوڑ کر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال صغیرہ ہیں اور یہ اعمال کبیرہ ہیں۔ اسی طرح گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ بھی بولا جاتا ہے۔ 
صغیرہ گناہ نیک اعمال کرنے سے خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پرآپ نے ظہر کی نماز پڑھی، اس کے بعد دنیوی کاموں میں مصروف ہوگئے، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، بات چیت ہوئی، اس دوران کچھ بھول چوک ہوگئی، اور صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا۔ پھر عصر کا وقت آیا، تو آپ نے مسجد کا رخ کیا، اچھی طرح سے وضو کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی، تو اس دوران جتنے بھی چھوٹے چھوٹے گناہ ہوئے تھے ، وہ سب معاف ہوگئے۔ لیکن اگر کبیرہ گناہ ہوجائے، تو پھروہ آٹومیٹک معاف نہیں ہوتے، اس کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور توبہ بھی اس عزم و عمل کے ساتھ مشروط ہے کہ اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد شامل ہو۔ کیوں کہ اگر دل میں یہ چور چھپا ہے کہ پھر کبیرہ گناہ ہوجائے گا، تو پھر توبہ کر کے معاف کرالیں گے، تو اس کا نام توبہ نہیں ہے۔ گرچہ دوبارہ کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے، تو دوبارہ توبہ کرنے سے معافی مل جاتی ہے۔
المختصر برے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ شریعت مطہرہ کی یہ تقسیم گناہوں کی کیفیت پر مبنی ہے ، لیکن اس کے بالمقابل گناہوں کی ایک تقسیم ہم نے بھی کر رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مولوی سے صغیرہ گناہ بھی ہوجائے، تو وہ ہماری نگاہ میں گناہ کبیرہ سے بڑا گناہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے وہ اتنا زیادہ سماجی لعن طعن کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فساد برپر کردینے والا اجتماعی جرم کردیا ہے۔ گرچہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ بے شک گناہ ہے، اور اس سے اجتناب بہرحال لازم ہے، لیکن اگر سماج اور عام طبقہ بڑے بڑے گناہ کے اعمال کریں، تو وہ اپنے لیے بھی اور سماج کی نگاہ میں بھی کوئی گناہ تک نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اگر سماج کا ایک عام فرد سینما ہال سے نکلے ، تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، فلم کے اثرات کو اپنی زندگی میں اتار لے، تو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر ایک مولوی محض سینماہال کے پاس بس کے انتظار میں کھڑا رہے، تو یہی شخص یا اس جیسا شخص یہ ٹوکنے کا سماجی حق رکھتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اور سینما گھر کے پاس؟۔ عام افراد سنت نبوی ﷺ کو ہر روز چہرے سے مٹانے کی کوشش کریں، تو کوئی عیب نہیں؛ لیکن ایک مولوی اگر تزئین کاری کرلے، تو پورے سماج کے چہرے پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
بے شک ہم عوام اور امت کے اس نیک جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ اپنے دینی قائد علمائے کرام کو منہج نبوی اور سنت طریقہ سے ایک انچ بھی ہٹا ہوا دیکھنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ہٹ جائیں ، تو وہ گناہ ، گناہ ہی نہیں ہوگا!۔ اسے توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟؟؟!!!۔

3 Dec 2017

رحلت نبوی ﷺ


رحلت نبوی ﷺ 
بارہ وفات نبوی ؑ پر ایک خصوصی تحریر
تحریر: محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
آج قلم کی روح بے چین و مضطرب ہے، کاغذ کا دل گریہ کناں و ماتم آسا ہے ، فکر کی لہریں درماندہ و افسردہ ہیں اور خامہ فرسانمدیدہ و دل گرفتہ ہے، اس کے آئینہ و فکر و خیال میں ماضی کے کچھ نقوش ابھرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں ،عشق محو حیرت ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اور کیوں کر ہے؟ قلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو وفراق کی خامہ فرسائی کر رہا ہے ، دل قرطاس کیا اس لیے ماتم زار ہے کہ حکایت برق و خرمن کے کرب و کسک سے بے چین ہو اٹھا ہے؟یا پھر تاریخ کے سینے میں محفوظ کچھ قیمتی جاں گسل یادیں اسے گریہ و بکا پر مجبور کر رہی ہیں؟ جی ہاں اس کی وجہ وہی تاریخ کی قیمتی یادیں ہیں، جو ہر صاحب خردو ذی شعور اور مدعی حب آں حضور کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہی ہیں۔
راجح تاریخ کے مطابق سرکار دو جہاں نبی اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش ۹؍ ربیع الاول ہے ، جب کہ رحلت نبوی علیہ السلام کی تاریخ ۱۲ ؍ ربیع الاول ہے ۔خود امام اہل سنت فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت نور اللہ مرقدہ نے نطق الہلال بارخ ولادۃ الحبیب والوصال میں صفحہ نمبر ۴ پر دلائل کے ساتھ تاریخ پیدائش ۸؍ ربیع الاول اور یوم وفات ۱۲؍ ربیع الاول تحریر فرمایا ہے۔ اور ہمارے یہاں ۱۲؍ تاریخ ، بارہ وفات سے ہی مشہور و معروف ہے۔ آئیے تاریخ سے معلوم کرتے ہیں کہ اس ۱۲؍ تاریخ کو اس کائنات رنگ و بو میں کونسا حادثہ دلدوز پیش آیا تھا کہ اس کی کسک و اضطراب سے دنیا آج بھی آہ فغا کر رہی ہے۔ 
جب سورہ فتح نازل ہوئی تو سرکار دوجہاں ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پالیا کہ اب رحلت قریب آگئی ہے۔اس کا اشارہ خود سرکار نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ دیا ،چنانچہ میدان عرفات کے خطبہ حج میں حمد و صلاۃ کے بعد پہلا درد انگیز یہی جملہ ارشادفرمایا کہ ائے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ حج سے واپسی کے بعد خداوند متعال کے دیدار کے شوق میں روز بروزاضافہ اور صبح و شام تسبیح و تحمید اور ذکرو اذکار میں انہماک بڑھتا گیا ۔ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان سے ارشاد فرمایا کہ بیٹی ! اب میری رحلت کا وقت قریب معلوم ہوتا ہے۔ایک دن شہدائے احد کی مردانہ وارقربانیوں کا خیال آیا تو گنج شہیداں تشریف لے گئے اور ان کے لیے بڑے درد و گداز سے دعائیں کیں اور انھیں اس طر ح الوداع کہا جس طرح کہ آخری ملاقات پر الوداع کہاجاتا ہے۔ان ایام میں خیال زیادہ تر گزرے ہوئے نیازمندوں کی طرف مائل رہتا تھا ،چنانچہ ایک رات آسودگان بقیع کا خیال آگیا ،تو آدھی رات کو اٹھ کر وہاں تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ انا بکم سلاحقون کہ اب جلد تمھارے ساتھ شامل ہورہا ہوں۔
بیماری کی ابتدا
۲۹؍ صفر بروز سوموار ایک جنازے سے تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں ہی سر کے درد سے بیماری کا آغاز ہوگیا ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ سر مبارک پر رومال باندھا ہوا تھا وہ اس قدر جل رہا رتھا کہ ہاتھ کو برداشت نہ ہوتی تھی۔ مرض بڑھتا گیا اس واسطے ازواج مطہرات نے مرضی سرکار کے مطابق آپ کا مستقل قیام حجرہ عائشہ میں کردیا ۔ ضعف اس قدر طاری تھا کہ حجرہ عائشہ تک خود قدموں سے چل کر نہ جاسکے ۔ حضرت علی اور حضرت فضل ابن عباسؓ نے آپ کے دونوں بازو تھام کر بڑی مشکل سے حجرہ عائشہ تک پہنچایا۔حضرت عائشہؓ نے دعا پڑھ کر جسم اطہر پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللھم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلیٰ ائے اللہ معافی اور اپنی رفاقت عطا فرما۔
وفات سے پانچ رو ز پہلے
وفات اقدس کے پانچ روز قبل بروز بدھ پتھر کے ایک ٹب میں بیٹھ گئے اور سر اقدس پر پانی کی سات مشکیں ڈالوائیں ۔ جس سے مزاج اقدس میں تھوڑی خنکی اور تسکین ہوئی تو مسجد نبوی تشریف لے گئے اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں آپ نے یہود و نصاریٰ کی طرح انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا و ما فیہا کو قبول کرے یا آخرت کو ترجیح دے، مگر اس نے آخرت کو قبول کیا۔ یہ سن کر رمز شناس نبوت حضرت ابو بکر صدیق ؓ زاروقطار رونے لگے، جس پر حاضرین نے انھیں تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکار ایک شخص کا واقعہ بیان کر رہے ہیں، اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ حضرت ابوبکر کی یہ حالت دیکھ کرخیال اشرف سے ارشاد ہوا کہ میں سب سے زیادہ جس شخص کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں وہ ابوبکر ہیں۔اگر میں کسی شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کرتا تو وہ ابوبکر ہوتے، لیکن اب رشتہ اسلام میرے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مسجد کے رخ پر سوائے دریچہ ابوبکر کے سب کو بند کرنے کا حکم دیا۔علالت نبوی پر انصار کو روتے ہوئے دیکھا تو انصار کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی وصیت فرمائی۔پھر حضرت اسامہ بن زید کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ حلال وحرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا میں نے وہی چیز حلال یا حرام کیا ہے جسے قرآن اور خدا نے حلال یا حرام قرار دیا ہے۔پھر اپنے اہل بیت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ائے رسول کی بیٹی فاطمہ اور ائے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ ! خدا کے ہاں کے لیے کچھ کرلو میں تمھیں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا ۔
وفات سے چار روز پہلے
بروز جمعرات حضرت عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمان کو بلا لیجیے اور دوات کاغذ لے آئیے میں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوں گے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے سرور کائنات کی شدت مرض کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی حالت میں تکلیف دینا مناسب نہیں ہے ،اب تکمیل دین کا کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہا جس میں قرآن کافی نہ ہو۔ بعض دوسرے صحابہ نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا اور شور شرابہ ہونے لگا جس پرحضور نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو ، میں جس مقام میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو۔پھر تین وصیتیں فرمائیں کہ کوئی مشرک عرب میں نہ رہے،سفیروں اور وفود کی بدستور عزت و مہمانی کی جائے اور تیسری قرآن کے بارے میں کچھ تھا جو راوی کو یاد نہ رہا۔
وفات سے تین روز پہلے
جمعہ کے دن مغرب کی نماز پڑھائی ۔ پھر غنودگی طاری ہوگئی ۔ عشا کے وقت آنکھ کھلی تو دریافت فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی؟صحابہ نے عرض کیا کہ سب لوگ حضور ﷺ کے منتظر ہیں۔ لگن میں پانی بھرواکر غسل فرمایا اور ہمت کرکے اٹھے مگر غش آگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آنکھ کھلی تو ارشاد فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی ہے ؟ صحابہ نے وہی جواب دیا کہ لوگ سرور کونین کی امامت کے منتظر ہیں۔اس مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی مگر بے ہوش ہوگئے۔ جب تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا گیا اور اٹھنے پر غشی آگئی ، تو افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھادیں۔حضرت ابوبکر بہت رقیق القلب تھے، اس لیے انھوں نے حضرت عمرؓ کو آگے بڑھادیا ۔ مگر حضور نے تین مرتبہ منع فرمایا اور فرمایا کہ نماز ابوبکر ہی پڑھائیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔
وفات سے دو روز پہلے
بروز سنیچر حضرت صدیقؓ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ سرور کائنات حضرات علی وعباسؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے ۔ نمازی نہایت بے قراری سے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صدیق بھی مصلیٰ سے پیچھے ہٹے ، مگر حضور نے دست اقدس سے اشارہ کیا کہ پیچھے مت ہٹو ، پھر حضور ، حضرت صدیق کے برابر بیٹھ گئے ، اب حضرت صدیق سرکار کی اقتدا کررہے تھے اور مسلمان صدیق اکبر کی اقتدا میں تھے۔ یہ پاک نماز اسی طرح مکمل ہوئی ۔ بعد ازاں حضور حجرہ حضرت عائشہ میں تشریف لے آئے۔
وفات سے ایک روز پہلے
اتوار کے دن صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کردیا جو ۴۰ کی تعداد میں تھے۔ پھر اثاث البیت کا جائزہ لیا تو صرف سات دینار تھے، جنھیں غریبوں میں تقسیم کرادیایہاں تک کہ آخری رات کو کاشانہ نبوی میں چراغ جلانے کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا۔ گھر میں کچھ ہتھیار تھے ، انھیں مسلمانوں کو ہبہ کردیا گیا ۔کمزوری لمحہ لمحہ بڑھ رہی تھی، حتی کہ غشی آگئی جس پر دردمندوں نے آپ کو دوا پلادی، افاقہ کے بعد جب احساس ہوا تو فرمایا اب یہی دوا ان پلانے والوں کو پلائی جائے، کیوں کہ دیدار خداوندی کا اشتیاق اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش تھی اور نہ ہی دوا کی۔
یوم رحلت
۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار مطابق مئی یا جون ۶۲۳ ء مزاج اقدس میں کسی قدر سکون تھا نماز فجر ادا کی جارہی تھی کہ سرکار نے مسجد اور کمرہ کا درمیانی پردہ سرکادیا، چشم اقدس نے دیکھا کہ لوگ رکوع و سجود میں مصروف ہیں، اس پاک منظر کو دیکھ کر جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ آں حضور مسجد میں تشریف لارہے ہیں ، نمازی بے اختیار ہونے لگے اور نمازیں ٹوٹنے لگیں۔ حضرت صدیق امامت کررہے تھے وہ پیچھے ہٹنے لگے، مگر حضور نے اشارہ اقدس سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھلاکر پھر کمرے کا پردہ ڈال دیا۔ طبیعت کا حال یہ تھا کہ غشی کے ایک بادل آتے تھے اور جاتے تھے ۔ ان تکلیفوں کو دیکھ حضرت فاطمہ رونے لگیں ۔ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ بیٹی مت رو۔میں دنیا سے رخصت ہوجاوں تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا ۔ پھر آپ نے ان کے کان میں کہا کہ بیٹی میں اس دنیا کو چھوڑ کر جارہا ہوں ، جس پر حضرت فاطمہ بے اختیار رونے لگیں۔ پھر فرمایا کہ فاطمہ!میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی، جس پر فاطمہؓ بے اختیار ہنس دیں۔حضرت حسن و حسین بہت غمگین ہورہے تھے انھیں پاس بلایا ، دونوں کو چوما اور ان کے احترام کی وصیت فرمائی ۔ پھر ازواج مطہرات کو طلب فرمایا اور انھیں بھی نصیحتیں کیں۔ پھر حضرت علی کو بلوایا اور انھیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ الصلاۃ الصلاۃ و ما ملکت ایمانکم، نماز، نماز اور غلام باندی۔رفتہ رفتہ حالت نازک ہوتی جارہی تھی کہ زبان اقدس سے ارشاد ہوا کہ لاالٰہ الا اللہ ان للموت سکرات۔کبھی ارشاد ہو تا کہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ۔ آپ کبھی چادر اقدس چہرے پر ڈالتے تھے اور کبھی ہٹا دیتے تھے کہ دفعۃ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء اور ولیوں کی قبروں کو سجد گاہ بنالیا ۔ اسی دوران حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر ایک تازہ مسواک لے کر آئے ، جسے دیکھ کر حضور نے مسواک پر نظر جمادی ، جس سے حضرت صدیقہ نے اشارہ سمجھ لیا اور دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی ۔ آپ نے بالکل تندرست کی طرح مسواک فرمایا ۔ پھریک لخت ہاتھ اونچا کیا گویا کہ کہیں تشریف لے جائیں گے اور زبان اقدس سے نکلا کہ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ اب اور کوئی نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے ، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ ربیع الاول کی ۱۲ کی تاریخ سوموار کا دن اور چاشت کا وقت تھا عمر مبارک قمری تاریخ کے اعتبار سے ۶۳؍ سال ہوئی ۔
تجہیز و تکفین
منگل کو تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوافضل بن عباس اور اسامہ بن زید پردہ تان کر کھڑے ہوئے۔ اوس بن خولی انصاریؓ پانی کا گھڑا بھر کر لائے ۔ حضرت عباس اور ان کے صاحبزدے جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے تھے اورحضرت اسامہ اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی غسل دے رہے تھے۔تین سوتی کپڑوں کا کفن دیا گیا ۔ حضرت صدیق اکبر کی رائے کے مطابق حجرہ عائشہ میں قبر کھودی گئی۔ حضرت طلحہ نے لحدی قبر کھودی ۔ زمین میں نمی تھی اس لیے بستر نبوی کو قبر میں بچھا دیا گیا ۔ جب جنازہ تیار ہوگیا تو اہل ایمان نماز کے لیے ٹوٹ پڑے اور سب نے الگ الگ نماز پڑھی۔ جنازہ چوں کہ کمرے میں تھا اس لیے نماز کا سلسلہ تقریبا ۳۲؍ گھنٹہ جاری رہا۔ اس لیے تدفین بروز بدھ رات کو عمل میں آئی ۔ جسم اطہر کو حضرات علی، فضل بن عباس، اسامہ بن زید اور حضرت عبدالرحمان بن عوف نے قبر میں اتارا اور اس باعث کون و مکاں ہستی کو ہمیشہ کے لیے اہل دنیا کی نگاہ سے اوجھل کردیا گیا ۔

10 Nov 2017

ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسلامی فارمولے

ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسلامی فارمولے
تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
(آج دہلی سمیت متعدد میٹرو سیٹی زہریلی ہوا  کی زد میں ہے۔ ایک طرف آسمان دھنواں دھنواں ہوچکا ہے،تو وہی دوسری طرف ہمہ وقت دوڑتی پھرتی گاڑیوں کی وجہ سے زمین کثافت سے بھر چکی ہے۔ گویا زمین اور فضا دونوں خطرناک حد تک پولیوٹیڈ ہوچکے ہیں۔ جس سے سانس، دمہ اور آنکھ میں جلن جیسی بیماریاں  بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اس سلسلے میں اسلام نے کیا ہدایات دی ہیں، آئیے دیکھتے ہیں اس تحریر میں)
صنعتی ترقیات اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات  نے جہاں ایک طرف وسائل حیات کی فراوانی اور انسانی زندگی کے لیے سہولیات و تعیش  فراہم  کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں دوسری طرف ان کے کارخانوں سے  خارج ہونے والے مضر مواد  اور فضلات نے  طبعی آب وہوا ، فطری حیاتیاتی نظاموں اور عوامل کو  بری طرح سے متاثر کردیا ہے ، جس سے  ماحولیات  میں کثافت اور آلودگیاں پیدا ہوگئی ہیں ، جنھیں درج ذیل پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:(1) فضائی آلودگیاں۔ (2) آبی آلودگیاں۔ (3) صوتی آلودگیاں۔ (4) زمینی آلودگیاں۔ (5) شعاعی آلودگیاں۔
بڑی بڑی کمپنیوں سے خارج ہونے والے گرین ہاوس گیس ، کثیر مقدار میں  فضا میں جلے ہوئے ٹھوس اور سیال اجزا جیسے دھول ، دھنویں اور اسپرے کی آمیزش بہت ہی خطرناک طریقے سے فضا کی کثافت میں اضافہ کررہی ہے۔جس سے سانس ، کینسر، وضع حمل اور سقوط حمل جیسی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ نامیاتی اور غیر نامیاتی صنعتی فضلات ،  فیکٹریوں سے  نکلنے والی ردیوں اور گرم پانی، پلاسٹک ، ربر، کیمیکل سے بنی چیزیں اورنالیوں کے   گندی پانی کو  دریاوں اور بڑے بڑے آبی ذخائر میں ڈالنے سے آبی آلودگیاں پیدا ہورہی ہیں۔جن سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند، پرند ؛ حتیٰ کہ نباتات  اور سمندری مخلوقات  بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔  پٹرول کی ریفائنری، صابن  سازی کے فضلاتی مادے، نمک، تیزاب، نقصان دہ کمیکل اور صنعتی کوڑا کرکٹ  زمینی آلودگیوں  کے بڑے اسباب ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے ، تو آسمان کا صاف شفاف پانی بھی زمینی آلودگیوں کی کثافت کو دھونے  میں ناکام رہتا ہے۔ جس سے  زمین بڑی تیزی سے ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے۔صوتی آلودگی کے بڑے اسباب میں سے صنعتی و تعمیراتی سرگرمیاں، ہمہ وقت چلنے والی مشینیں، جنریٹر، گاڑی اور گانے بجانے کے آلات ہیں،  جوفلک شگاف شورو ہنگامہ کا تسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 38 ڈسیمل سے زائد شور ہونے پر چڑچڑاپن، غصہ، ذہنی تناو، حرکت قلب، بلڈ پریشراور بہرے پن کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں۔ذرائع مواصلات: ریڈیو، ٹی وی اور موبائل نیٹ ورکنگ سسٹم میں  استعمال ہونے والی  برقی لہریں بڑی مقدار میں ریڈیشین خارج کر رہی ہیں، جو حرکت قلب اور سمعی قوتوں کو کمزور کرتی رہتی ہیں۔
درج بالا آلودگیاں خود انفرادی حیثیت سے بہت مضر ہیں، لیکن یہ سب آلودگیاں ایک ساتھ خارج ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے ماحولیات خطرناک حد تک مسموم ہوتی جارہی ہیں چنانچہ فضائی و آبی آلودگیوں کی وجہ سے زمین کی حدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے بڑی تیزی سےگلیشیر پگھل رہے ہیں  اور سطح سمندر بلند ہوتی جارہی ہے۔ جس سے زمین کے قابل رہائش حصے  ڈوبتے جارہے ہیں۔کیمیائی کھادوں ،  پٹرول، گیس اور ایٹمی توانائی کا بے جا استعمال زمینی و  آبی  آلودگیوں  میں اضافہ کا سبب بنتا جارہا ہے، جس سے ہریالی اور پیڑ پودے  متاثر ہورہے ہیں علاوہ ازیں بڑی بڑی کمپنیوں اور نو آبادیات کے پھیلاو کے سبب جنگلات کی کٹائی سے گلوبل وارمنگ کی  خطرناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ مختصر یہ کہ قدرتی وسائل  کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سے  تری ، خشکی؛ حتیٰ کہ فضا میں  بھی فساد برپا ہوگیا ہے ، جس سے پوری دنیا  کے سامنے ماحولیات کا مسئلہ ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ اس تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر سال 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے، اس کے مضر اثرات پر قابو پانے کے لیے نیشنل اور نٹرنیشنل سطح پر بڑے بڑے اجلاس اور کانفرنسیں کی جارہی ہیں، لیکن یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید سنگین حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔اور آج کا حال یہ ہے کہ دنیا  تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
اسلام ایک دین فطرت ہے ۔ یہ انسانوں کے سامنے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے، اس لیے یہ دعویٰ بجا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اسلام نے اس  سلسلے  میں کوئی ہدایت نہ دی ہو، چنانچہ اسلام نے اس وقت ماحولیات کے ان مسائل کا حل پیش کردیا تھا، جبکہ یہ مسئلہ انسان کے حاشیہ خیال میں بھی تھا۔ اس لیے آئیے ذیل کی سطروں میں ماحولیاتی کثافتوں کی ہر قسم کے تعلق سے  اسلام کی ہدایات و رہنمائی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1) فضائی آلودگیوں سے تحفظ پر اسلامی ہدایت
(1) اسلام انسانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی انسان مرجائے ، تو اسے پہلے غسل دو، پھر کفن بھی دو اور بعد ازاں قبر میں رکھ دو۔  ارشاد خداوندی ہے کہ  ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ (پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچا دیا۔) (سورہ عبس، آیت 21، پارہ 30)۔ انعام و اکرام والی آیتوں کےضمن میں یہ آیت وارد ہوئی ہے،لہذااس کا جہاں ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ہو، اور اس کی لاشوں کو درندے اور پرندے نہ نوچ کھائیں،  وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مردہ جسموں سے پیدا ہونے والے تعفن سے فضا مسموم نہ ہو۔
بین ٹلی یونیورسٹی کے پروفیسرسوسن ڈوب سچا کا کہنا ہے کہ  جلتی لاش کے دھنویں سے  کاربن مونو آکسائیڈ، کالک، سلفر ڈی  آکسائیڈ اور خطرناک بدبو ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، جس سے فضا مکدر ہوجاتی ہے ، اسی طرح اس کی راکھ کو پانی میں ڈالنے سے  یہ سب زہریلی اثرات پانی کو متاثر کرتے ہیں اور آبی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اگر لاش کو زمین میں دفن کردیا جائے، تو زمین لاش کو خود میں جذب کرکے مٹی بنالیتی ہے اور اس سے نیوٹرینٹ حاصل کرتی ہے۔ جس سے اس کی قوت افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(2) ہرے بھرے پیڑ پودے اور سرسبز شادابی نہ صرف منظر کو حسین بناتے ہیں؛ بلکہ اس سے فضائی آلودگیاں بھی ختم ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق  انسان جب سانس باہر نکالتا ہے ، تو مضر کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے اور سانس لیتے وقت آکسیجن کھینچتا ہے ، پیڑ پودے اپنے عمل تنفس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں، اس اعتبار سے پیڑے پودے انسانوں کو فریش اور تازہ ہوا مہیا کراتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے مضر کاربن کو ہضم کرکے ہوا میں توازن پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے.۔
اسلام میں شجر کاری کی اہمیت
اسلام نے شجر کاری کی خصوصی ہدایات دی ہیں اور اسے ثواب اور صدقہ جاریہ کا ذریعہ بتایا ہے۔ اور بلاضرورت درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (صحیح البخاری، کتاب المزارعة، بَاب فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ)
" مسلمان جو بھی میوہ دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے پرندے ، آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں اس کا ثواب اس کو ملتا ہے"۔
درخت لگانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جو کارآمد درخت ہے اسے نہ کاٹا جائے، چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ( سنن ابی داود، کتاب الادب، باب قطع السدر)
جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔
اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین بے آب وگیاہ پڑی ہے، اور صاحب زمین خود سے کچھ نہیں کرپاتا، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو دیدے تاکہ وہ اسے قابل کاشت اور قابل استعمال بنائے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَزْرَعْهَا، فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب البیوع، بَابُ كِرَاءِ الْأَرْضِ)
حوالے اور بھی ہیں، جنھیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جاتا ہے، ان تمام تعلیمات و ارشادات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف شجرکاری کو فروغ دینے کے احکامات جاری کیے ہیں؛ بلکہ اسے صدقہ جاریہ کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے، جس کا فائدہ صرف اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں رہ جاتا؛ بلکہ  آخروی زندگی کے لیے بھی مفید تر قرار پاتا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی یہی معنویت اسے آفاقی، دائمی اور فطری ہونے کا امتیاز بخشتی ہے ۔  
فضائی کثافت سے بچنے کے لیے اسلام کی یہ خوبصورت تجاویزہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے، تو ایک حد تک فضائی آلودگی سے نجات مل سکتی ہے۔
(2) آبی آلودگیوں کا اسلامی تحفظ
اسلامی نظریہ کے مطابق پانی ہر چیز کی روح حیات ہے، اس لیے اسے  گندہ کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ اور اس کے تحفظ کے لیے کئی اہم طریقے بتلائے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(1) اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ ( سنن ابی داود، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِي نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبَوْلِ فِيهَا ) ’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص نہر، نالہ، یا  تالاب وغیرہ  کے کنارے بول وبراز کرے گا، تو وہ گندگی پانی میں پہنچ جائے گی اور پانی کو آلودہ   و ناقابل استعمال بنا دے گی۔
(2) لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي المَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لاَ يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ( صحیح البخاری،کتاب الوضوء، بَابُ البَوْلِ فِي المَاءِ الدَّائِمِ)
تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہو، پھر اس میں غسل کرے۔
آبی آلودگی کے تحفظ کے لیے ہر اس طریقہ پر اسلام نے قدغن لگایا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ پانی آلودہ ہوتا ہے ؛ بلکہ ناپاک ، حتی کہ طبیعت پر اس کے استعمال سے تنفر بھی پیدا ہوتا ہے، چنانچہ بڑے برتن میں منھ لگاکر پانی پینا، پانی کے برتن میں سانس لینا، یا اس میں پھونک مارنا، برتن کو ڈھک کر نہ رکھنا  اور حالت جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنا شامل ہے۔اختصار کے پیش نظر ان کے حوالوں کو ترک کیا جارہا ہے۔
(3) صوتی آلودگی پر کنٹرول کی اسلامی تدابیر 
اسلامی عبادات اور تعلیمات میں صوتی آلودگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلا م نقطہ نظر یہ ہے کہ آواز نہ تو بہت زیادہ بلند ہو کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی اتنی پست ہو کہ جس مقصد کے لیے آواز نکالی جارہی ہے، وہ مقصد بھی پورا نہ ہو۔ اس تعلق سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آوازسے پڑھیے، نہ بالکل پست آواز سے، بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجیے۔
(2) أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا (سنن ابی داود، باب تفاریع ابواب الوتر، باب الاستغفار)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے  جب مدینہ سے قریب ہوئے تو لوگوں  نے بلند آواز میں اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔
ان کے علاوہ بھی حوالے موجود ہیں، جن میں صوتی آلودگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق موقع و محل کی مناسبت سے بقدر ضرورت آواز استعمال کرکے انسان اپنے مقصد کو پورا کرے، تو صوتی آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(4) زمینی آلودگی سے حفاظت کے لیے اسلام کا فارمولہ
انسان و حیوانات کے ساتھ ساتھ نباتات کی بقا کا دارو مدار اچھی زمین پر ہے، اسی لیے اسلام نے اس کے برباد کرنے کو سختی سے ناپسند کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205 سورة البقرة، آیة: 205)
اور جب وہ آپ کے پاس سے واپس جاتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ زمین کی صلاح و فلاح اوراس  کی صلاحیت کو غارت کرنا مذموم حرکت ہے، اس لیے وہ تمام کام، جن سے زمین کی فطری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اسلام ان سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس ہدایت کے پیش نظر اگر قدرتی وسائل کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے ، اور اس کو نقصان پہنچنے والے عوامل کو نظر انداز نہ کیا جائے، تو زمینی کثافت رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی ۔
(5) شعاعی آلودگی کی روک تھام کے لیے اسلامی اشارات
(1)سن 8 ہجری کا واقعہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت ملک شام کی جنگ موتہ میں ہے۔ آپ مسجد نبوی کے ممبر پر جلوہ افروز ہیں، صحابہ کا ایک گروہ آپ کے ارشاد گرامی قدر کے منتظر ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسو جاری  ہیں اور ارشاد فرمارہے ہیں کہ زید شہید ہوگئے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ اب جعفر بھی جنت سدھار گئے۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن رواحہ بھی اپنی آخری سانس لے چکے۔ پھر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اب اسلامی جھنڈا سیف من سیوف اللہ کے ہاتھ میں آچکا ہے ۔ پھر فتح کی بشارت سنائی۔
لما التقى الناس بمؤتة جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وكشف الله له ما بينه وبين الشام، فهو ينظر إلى معتركهم، فقال أخذ الراية زيد بن حارثة (البدایة والنهایة،ج، 4، ص281)
(2) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  23 ہجری میں فارس کےمیدان جنگ میں صرف اپنے آگے کا منظر دیکھ رہے ہیں، پہاڑ کے پیچھے سے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے بالکل بے خبر ہیں، وہاں سے سیکڑوں کلو میٹر دور مدینے کی مسجد نبوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں کہ اچانک بیچ میں ایک جملہ  ارشاد فرماتے ہیں کہ یا ساریۃ ! الجبل!۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! دشمن نے تمھیں پیچھے سے گھیر لیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یہ آواز سن کر پلٹتے ہیں اور دشمن پر پلٹ وار کرکے میدان جنگ جیت لیتے ہیں۔
وكان من قصته أن عمر رضى الله عنه أمره على جيش وسيره إلى فارس سنة ثلاث وعشرين، فوقع في خاطر سيدنا عمر وهو يخطب يوم الجمعة أن الجيش المذكور لاقى العدو وهم في بطن واد وقد هموا بالهزيمة، وبالقرب منهم جبل، فقال في أثناء خطبته: يا سارية، الجبل الجبل ! ورفع صوته، فألقاه الله في سمع سارية فانحار بالناس إلى الجبل وقاتلوا العدو من جانب واحد، ففتح الله عليهم. (تفسیر القرطبی، ج 12، ص79)
شرعی اصطلاح میں وسائل کے بغیر اس قسم کے مواصلات کو فراست ایمانی کہاجاتا ہے۔ درج بالا واقعات گرچہ اس عنوان کے لیے عبارۃ النص کے حوالے نہیں ہیں، تاہم اشارۃ النص اور  اسلام کی دوسری ہدایات  جیسے کہ   وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (سورۃ النساء، آیت 29) اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو کے پیش نظر یہ کہاجاسکتا ہے کہ جہاں تک ہلاکت خیز اشیا کے بغیر کام چل سکتا ہو، کام چلانا چاہیے، لیکن اگر اس کے بغیر چارہ کار نہ ہو، تو بقدر ضرورت ہی اس کا استعمال کیا جائے۔ نیز  ریڈیشن خارج کرنے والے آلات جدید سائنس کا کارنامہ ہے، تو سائنس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کھوج جاری رکھے اور ایسی ایجاد لائے، جس سےاس خطرہ پر قابو پایا جاسکے۔
اسلامی ہدایات میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان ایسی جگہ نہ بیٹھے کہ آدھا جسم تو سایہ میں ہو اور آدھے حصے پر دھوپ پڑ رہی ہو ۔ اسی طرح براہ راست سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی سے بھی وضو اور غسل کرنے کو استحباب کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ  لا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ۔ (سنن الدار قطنی،کتاب الطهارة، باب الماء المسخن) دھوپ سے گرم ہونے والے پانی سے وضو نہ کرو، کیوں کہ اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ ارشاد ہماری رہ نمائی کرتا ہے کہ شعاعیں نقصان دہ ہیں اور ان سے تحفظ کا طریقہ اختیار کرنا ایک انسانی ضرورت ہے، اس لیے جدید سائنسی ایجادات کے نتیجے میں جو نئی نئی شعاعیں اور ریڈیشن وجود میں آئے ہیں، ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے حل ڈھونڈھنا اسلامی مزاج کے منافی نہیں، بلکہ اس کی ہمنوائی ہے

مختصر یہ کہ شجری کاری اور درج بالا اسلامی تعلیمات  پر عمل کرلیا جائے، تو ماحولیاتی کثافت پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اور دنیا پھر قدرتی آب و ہوا میں سانس لینے کی قابل بن سکتی ہے۔