5 Oct 2021

1947 میں جمعیت علمائے ہند کے سنہرے کارنامے

 

1947  میں جمعیت علمائے ہند کے سنہرے کارنامے

محمد یاسین جہازی

وزیر اعظم برطانیہ مسٹرایٹلی نے 20/ فروری 1947کو اعلان کیا کہ جون 1948تک ہندستان کو آزاد کردیا جائے گا۔ اس اعلان سے پیدا شدہ نازک صورت حال پر غورو خوض کرنے کے لیے 13تا 15/ مارچ 1947کو مجلس عاملہ کا اجلاس کیا گیا، جس کی پہلی تجویز میں مسٹر ایٹلی کے اعلان آزادی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جمعیت علمائے ہند کی طویل جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا۔ دوسری تجویز میں فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کی تقسیم کو ملک کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص تباہ کن قرار دیا اور پنجاب کی تقسیم کے لیے کانگریس کی رضامندی پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔ تیسری تجویز میں آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مذہبی اور قومی تحفظات کے لیے تمام مسلم جماعتوں کا ایک مشترکہ اجتماع بلانے پر زور دیاگیا۔ اور صدر مسلم لیگ کو دعوت عمل دیتے ہوئے متعدد خطوط لکھے، لیکن مسلم لیگ نے اسے منظور نہیں کیا۔ چوتھی تجویز میں پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔پانچویں تجویز میں فسادات بہار کے متاثرین کے ساتھ حکومت بہار سے مکمل انصاف کرنے کا مطالبہ کیا۔

کیبنٹ مشن بھارت میں عارضی قومی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، تو مسٹر ایٹلی وزیر اعظم برطانیہ نے اپنے 20/ فروری کے اعلان کے مطابق جلد از جلد مکمل اختیارات ہندستانیوں کو منتقل کرنے کے لیے24/ مارچ  1947کو وائسرائے ویول کی جگہ ماونٹ بیٹن کو ہندستان کا بیسواں اور آخری وائسرائے بناکر بھیجا۔بیٹن نے ہندستان آتے ہی بھارتی لیڈروں کے نظریات اور رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے میٹنگوں اور گفت و شنید کا سلسلہ شروع کردیا۔ انھوں نے بالعموم کیبنٹ مشن کو منظور کرلینے کا مشورہ دیااور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر یہ قابل قبول نہیں ہوگا، تو اس کی متبادل صورت بھی موجود ہے۔لیکن مسلم لیگ کا پاکستان کے لیے اصرار کے پیش نظر کیبنٹ مشن پلان منظور نہیں ہوا۔اور متبادل کے طور پر ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا پلان پیش کردیا۔ان حالات کے پیش نظر از 9تا 11/ مئی 1947کو لکھنو میں جمعیت علمائے ہند نے مجلس عاملہ اور مجلس مرکزیہ (جنرل کونسل) کا اجلاس کیا، جس کی پہلی تجویز میں مسٹر ایٹلی کے اعلان کا خیر مقدم کیا، لیکن فرقہ وارانہ خطوط پرملک کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کیبنٹ مشن پلان کو ہی قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ دوسری تجویز میں پورے ہندستان میں ہورہے فرقہ وارانہ فسادات کو پوری دنیا میں ہندستان کو شرمندہ کرنے والا عمل قرار دیتے ہوئے اس سے مکمل بیزاری کا اعلان کیا۔تیسری تجویز میں ہندستانیوں کو تحفظ وطن اور انسداد فسادات کے لیے اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ چوتھی تجویز میں مسلمانوں کی مذہبی، تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح پر زور دیا گیا۔ پانچویں تجویز میں بہار فسادات متاثرین سے متعلق حکومت بہار کی مجرمانہ غفلت کی تلافی کرنے کا مطالبہ دوہرایا۔ چھٹی تجویز میں حکومت یوپی سے گڈھ مکٹیشر فساد مظلومین کی امداد کرنے کی اپیل کی۔ ساتویں تجویز میں دستور ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی صحیح نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا۔ آٹھویں تجویز میں مدح صحابہ سے متعلق حکومت یوپی کے رویہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ نویں تجویز میں سندھ کے حروں پر مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ اور آخری تجویز میں امیر شریعت ثانی بہار حضرت مولانا شاہ محی الدین قادری نور اللہ مرقدہ کے علاوہ دیگر سماجی شخصیات کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدری کے جذبات پیش کیے۔

جب مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن کے پلان کو منظور نہیں کیا، تو ماونٹ بیٹن نے ہندستان کی تقسیم کا فارمولہ پیش کیا اور 2/ جون 1947کو سبھی ہندستانی لیڈروں کو بلاکر اسے منظور کرالیا۔ پھر اسے مسلم لیگ نے 9-10/ جون 1947کو،اور14-15/ جون 1947کو کانگریس نے اپنے اپنے اجلاس میں باقاعدہ منظور کیا۔ کانگریس کے اجلاس میں صرف مسٹر پروشتم داس ٹنڈن اور جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا محمد حفظ الرحمان صاحب نور اللہ مرقدہ نے ہی اس تجویز کی مخالفت کی۔ بعد ازاں 24/ جون 1947کو مجلس عاملہ کا اجلاس کیا گیا،جس میں تقسیم ہند کو مسلمانوں کے لیے سخت نقصان قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس سے بیزاری کا اعلان کیا؛ بلکہ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کی بھی دھمکی دی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ہندستان کی تقسیم نہیں رک سکی اور 14/ اگست 1947کو پاکستان ڈومینین کا اور 15/ اگست 1947کو ہندستان کی مکمل آزادی اعلان کردیا گیا۔چوں کہ ہندستان کی آزادی میں جمعیت نے انقلاب آمیز قائدانہ کردار ادا کیا تھا، اس لیے ناظم عمومی جمعیت علمائے ہندنے سبھی لوگوں سے دھام دھام سے جشن آزادی منانے کی اپیل کی۔

اس  24/ جون 1947کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں دیگر تجاویز پاس کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کوپاکستان، ہندستان یا آزاد ریاست رہنے کے سلسلے میں ان  کے باشندگان کے صوابدید پر چھوڑنے، صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرانے کی مخالفت، بصورت مجبوری رائے دہندگان کو ہندستان اور پاکستان کے حق میں رائے دینے کے بجائے آزاد انہ رائے دینے کا مطالبہ، ضلع سلہٹ کو ریاست آسام میں شامل رکھنے اور پانچ کروڑ مسلمانوں کے قومی و ملکی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک عام کانفرنس بلانے پر زور دیا گیا۔ چنانچہ 28-29/ دسمبر1947کو لکھنو میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کی صدارت میں ”مسلم کانفرنس“ ہوئی، جس میں سبھی مسلم جماعتوں نے متفقہ طور پر فرقہ وارانہ پارلیمانی سیاست سے علاحدگی کا اعلان کیا۔

ہندستان کے اعلان آزادی کے ساتھ ہی پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے، جس میں جمعیت علمائے ہند کے خدام نے جان کی بازی لگاکر متاثرین و مظلومین کی راحت رسانی اور باز آباد کاری کے کام کیے؛ بالخصوص دہلی، گوڑگاوں کوٹ قاسم وغیرہ میں جنگی پیمانے پر خدمات انجام دیں۔

اس سال جمعیت علمائے ہند کا انتخاب ہوا، جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کو پھر سے صدر منتخب کیا گیا۔ جمعیت علمائے ہند کی دیگر خدمات میں 23-24/ مارچ 1947کو دہلی میں منعقد ایشین کانفرنس میں شریک مسلم نمائندگان کو 31/ مارچ 1947کو ایک عصرانہ دے کر ایک سپاس نامہ بھی پیش کیا۔ سکھوں کے آزادانہ تلوار لے کر گھومنے کے خلاف 30/ مارچ 1947کو تلوار پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔15/ جون 1947کو فرقہ وارانہ بد ترین صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ریاست بھرتپور اور جے پور کے نام تار بھیجا۔15جون 1947کو خط لکھ کر حجاج کے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کی۔  17/ جون 1947کو یوم فلسطین منانے کی اپیل کی۔ صدر جمعیت نے ایک بیان دے کر کہا کہ انڈونیشیا کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے۔ہندستان میں ہندووں کے رحم و کرم پر رہ جانے والے ساڑھے پانچ کروڑ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور اخلاقی جائزہ لینے کے لیے  13/ اگست 1947کو، 24/ سوالات پر مشتمل ایک سروے فارم جاری کیا۔انتقال آزادی سے پیدا شدہ نازک صورت حال میں دکانوں اور مکانوں پر ناجائز قبضہ اور دوسرے فوجداری معاملات میں قانونی امداد فراہم کی۔ اسی طرح ان ناگفتہ بہ حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے جمعیت سنٹرل ریلیف کمیٹی نے گاندھی جی سے کامیاب ملاقات کی۔ اسی سال جمعیت علمائے ہند کا ترجمان روزنامہ الجمعیۃ کا دوبارہ اجرا عمل میں آیا۔