"اب سکون کے ساتھ کام کرنے کا وقت نہیں ہے؛ سر بکف ہوکر میدان عمل میں آجانا چاہیے۔" شیخ الہند کا پیغام تمام بھارتیوں کے نام
جب ہندستان میں انگریزوں کا تسلط ہوگیا تھا اور مسلمانوں کا دین وایمان پر قائم رہنا دشوار ہوگیاتھا، تو ہندستان سے سامراجی قوتوں اور انگریزی تہذیب کا خاتمہ کرنے اور مسلمانوں کے دینی تحفظ کی غرض سے ۱۵/ محرم ۱۲۸۳ء مطابق ۱۸۶۶ء کو دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا۔
اس کے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ سے دین وسیاست کی تعلیم حاصل کرنے والے اولین شاگرد حضرت شیخ الہند مولانا مفتی محمود حسن دیوبندی نور اللہ مرقدہ نے بھارت کو آزاد کرانے کے لیے سب سے پہلے 1878 میں بمقام دیوبند ثمرۃ التربیۃ قائم کیا۔ اس کے بعد 1910 میں جمعیۃ الانصار کی بنیاد رکھی گئی، اور مولانا عبید اللہ سندھی نور اللہ مرقدہ کو ناظم مقرر کیا گیا۔ اس کا پہلا جلسہ اپریل 1911 میں مرادآباد میں کیا گیا، اور اعلان جہاد حریت کو دہرایا گیا۔
بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دینی تعلیم و تربیت کے لیے دیوبند کو اور سیاسی تعلیم و تربیت کے لیے دہلی کو مرکز بنایا جائے۔ چنانچہ یہ مرکزیت دیوبند سے دہلی منتقل کردی گئی اور بحکم شیخ الہند نور اللہ مرقدہ مولانا عبید اللہ سندھی نور اللہ مرقدہ نے دہلی میں نظارۃ المعارف القرآنیہ سے ایک مرکز قائم کرکے سیاسی کام شروع کردیا۔
1914 میں جنگ عظیم اول چھڑجانے کی وجہ سے برٹش حکومت پر ضرب لگانے اور آزادی کی لڑائی کو مہمیز کرنے کے لیے حضرت شیخ الہند نور اللہ مرقدہ کو امید کی ایک کرن نظر آئی ۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند نے مجاہدین کے مرکز یاغستان کو پیغام بھیج کر کہا کہ اب سکون کے ساتھ کام کرنے کا وقت نہیں ہے؛ سر بکف ہوکر میدان عمل میں آجانا چاہیے۔ شیخ الہند نور اللہ مرقدہ نے مولانا عبید اللہ سندھی کو باہر سے حملہ کرانے کے لیے افغانستان بھیجا اور خود حجاز جاکر ترکی لیڈروں سے ملاقات کرنے اور مجاہدین کے مرکز کا مستقل انتظام کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ادھر دوسری طرف مولانا عبید اللہ سندھی نے افغانستان میں بھارت کی آزاد عارضی حکومت قائم کرکے مسلح جدوجہد چھیڑنے کے اپنے مقصد سے آگاہ کرنے کے لیے حجاز میں مقیم حضرت شیخ الہند نور اللہ مرقدہ کو ریشمی رومال پر تین خفیہ خطوط لکھے،جنھیں جناب عبد الحق صاحب کے توسط سے شیخ عبد الرحیم کو سندھ بھجوایا ، تاکہ یہ انھیں حجاز پہنچادے؛ لیکن یہ خظوط عبد الحق صاحب تک پہنچنے سے پہلے خان بہادر رب نواز خان ملتان کے ہاتھ لگ گیا، جس نے انھیں انگریز گورنر کے حوالے کردیا۔
خطوط کا افشا ہونا تھا کہ انگریزوں نے اس تحریک سے وابستہ افراد کو اندھا دھند گرفتار کرناشروع کردیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا مفتی محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا عزیر گل، مولانا حکیم نصرت حسین اور مولانا وحید احمد کو حجاز میں ہی گرفتار کرلیا گیا۔ فروری 1917 میں حضرت شیخ الہند کو جزیرہ مالٹا بھیج دیا گیا۔ اس کے تین سال بعد رہا ہوکر جون 1920 میں آپ بھارت تشریف لائے ، آزادی وطن میں عصری طبقے کو بھی شامل کرنے کے لیے29 اکتوبر 1920 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اور علمائے ہند کے متحدہ پلیٹ فارم جمعیت علمائے ہند کے عہدہ صدارت کو قبول فرمایا، جس کے دس دن بعد ہی 30 نومبر 1920 کو آپ کا وقت اجل آپہنچا ۔
آپ نے اپنی پوری زندگی کا عملی پیغٖام یہی دیا کہ بھارت کو آزادی کرانا بھارتیوں؛ بالخصوص مسلمانوں کا وطنی و ملی فریضہ ہے۔
آج سوسال کے بعد جب کہ بھارت پھر سے کالوں کا غلام بن چکا ہے، حضرت شیخ الہند نور اللہ مرقدہ کے فرزندان حریت کو حضرت کا یہ سبق دہراتے ہوئے اعلان کردینا چاہیے کہ
"اب سکون کے ساتھ کام کرنے کا وقت نہیں ہے؛ سر بکف ہوکر میدان عمل میں آجانا چاہیے۔"