1 Jun 2018

رمضان میں نبوی سخاوت وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے

رمضان میں نبوی سخاوت
وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ9871552408
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے۔ اس کے باوجود جب رمضان آتا، تو آپ کی سخاوت تیز ہوا سے بھی زیادہ برق رفتار ہوجاتی۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ 
و کان النبی ﷺ اجود الناس، واجود مایکون فی رمضان، یکثر فیہ من الصدقۃ والاحسان و تلاوۃ القرآن والصلاۃ و الذکر والاعتکاف۔ (زاد المعاد،۲؍۳۲)
حضرت ابن عباسؓ سے بخاری میں ایک روایت منقول ہے کہ 
کان رسول اللہ ﷺ اجود الناس، و کان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبرئیل، و کان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان، فیدارسہ القرآن، فلرسو ل اللہ ﷺ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ 
یہ حدیث شاہد عدل ہے کہ رمضان کا کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا، جس دن نبی اکرم ﷺ سخاوت و فیاضی نہ کرتے ہوں۔ اس لیے نبوی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارا فریضہ اور وطیرہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم بھی روزانہ کچھ نہ کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔
جن لوگوں کے پاس وسعت ہے اور اس کے باوجود وہ خرچ نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے بارے میں خطرہ یہ ہے کہ ان سے خرچ کرنے کی توفیق ہی سلب نہ کر لی جائے اور پھر ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا مال اس کے لیے طوق بن جائے اور کل قیامت کے دن اسی مال کو گنجا سانپ بناکر اس پر مسلط کردیا جائے ۔ 
ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرا لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ وللہ میراث السماوات والأرض واللہ بما تعملون خبیر 
و في الحديث الصحیح، ''إن البخیل یمثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعا أقرع، لہ زبیبتان، یأخذ بلھزمتیہ یقول: أنا مالک، أنا کنزک، وتلا رسول اللہ ﷺ مصداق ذلک، ھذہ الآیۃ۔
تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ 
ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہتعالیٰ سے میرے مال میں فراوانی اور رزق میں فراخی کی دعا فرمادیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ثعلبہ! اللہ تجھ پر رحم کرے، وہ کم جس کا شکر ادا کرسکو اس زیادہ سے بہتر ہے جس کے تحمل کی تم میں طاقت نہ ہو۔ یہ سن کر اس وقت چلے گئے، لیکن بعد میں یہ دوبارہ آئے اوراپنی بات دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا تمھارے لیے مجھ میں بہترین اسوہ نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا اور چاندی بن کر میرے ساتھ ساتھ چلیں تو چلیں گے۔ چنانچہ خاموش ہوگئے۔
کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ پھر آئے اور طلب مال کی وہی پرانی بات دہرائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا کیا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے بکری پالی۔ نبی اکرم ﷺ کی دعا کی برکت سے اس کی کیڑوں کی طرح افزائش ہوئی ، جس کی دیکھ ریکھ کے لیے بہت زیادہ مشغول رہنے لگے۔ اب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ظہر اور عصر پڑھتے تھے، بقیہ نمازیں اپنی بکریوں میں پڑھاکرتے تھے ۔ بکریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی ، جس کی دیکھ بھال کے لیے اتنے مصروف ہوگئے کہ جمعہ اور جماعت میں بھی حاضر نہیں ہونے لگے۔ البتہ جب جمعہ کا دن آتا تو لوگوں سے نبی اکرم ﷺ کے حال پوچھ لیا کرتے تھے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا ذکر کیا اور صحابہ سے دریافت کیا، تو انھوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ثعلبہ نے اتنی بکریاں پال لی ہیں کہ ان کے لیے وادیاں تنگ ہورہی ہیں۔ اور وہ مدینہ سے باہر قیام پذیر ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ!۔
جب زکوۃ فرض ہوئی، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک اور بنو جہینہ کے ایک (دو آدمیوں) کو زکوۃ کا نصاب لکھ کر ثعلبہ اور بنو سلیم کے ایک شخص کے پاس وصولی کے لیے بھیجا۔چنانچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سناکر زکوۃ طلب کی۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ جاؤ دوسروں سے فارغ ہوکے میرے پاس آنا۔ وہ دونوں بنوسلیم کیشخص کے پاس گئے، اس شخص نے قاصد رسول کی آمد کے بارے میں سنا تو اپنے اچھے اچھے اونٹ صدقہ کے لیے الگ کردیے۔اوران دونوں کا استقبال کرتے ہوئے اچھے الگ کیے ہوئے اونٹ پیش کیے۔قاصد رسول نے کہا: یہ آپ پر واجب نہیں (یعنی اوسط سے بڑھ کر اچھے اچھے اونٹ تم پر واجب نہیں)۔ لیکن اس شخص نے کہا یہیں اونٹ قبول کریں میں بہ طیب خاطر دے رہا ہوں۔
وہ دونوں دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے اور ان سے زکوۃ وصول کرکے، دوبارہ ثعلبہ کے پاس آئے تو ثعلبہ نے کہا: مجھے خط دکھاؤ۔ اسے پڑھا پھر کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ آپ دونوں جائیں میں غور کرتا ہوں۔
جب وہ دونوں واپس ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر گفتگو سے پہلے ہی کہا: ہائے ثعلبہ! پھر بنو سلیم کے آدمی کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ان دونوں نے آپ کو ثعلبہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ پھر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
وَمِنْھمْ مَنْ عَاھَدَ اللَہَ لَءِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلہِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ (۷۵) فَلَمَّا آتَاھُمْ مِنْ فَضْلِہِ بَخِلُوا بِہِ وَتَوَلَّوْا وَھُمْ مُعْرِضُونَ (۷۶) فَأَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِھِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنہُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَہَ مَا وَعَدُوہُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (التوبۃ: ۵۷ ۔ ۷۷) 
ترجمہ: (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا،جو اللہ کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا)۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کے قرابت داروں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ یہ بات سن کے بھاگتا ہوا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا: ثعلبہ تم برباد ہوئے۔ تمھارے بارے میں ایسی اور ایسی آیت نازل ہوئی ہے۔ ثعلبہ بہت پچھتائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے، چنانچہ وہ حسرت وندامت سے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تو خود تمھارا عمل ہے۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ مانی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی ان کا صدقہ قبول نہیں کیا ۔بعد ازاں حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنھما کا دور آیا اور ان دونوں کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو ان دونوں کا یہی جواب تھا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، میں کیسے قبول کرلوں؟ پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس بھی اپنا صدقہ لے کر آئے اور قبول کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا: جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، اور نہ ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم نے قبول کیا تومیں کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ چنانچہ اسی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ثعلبہ کی وفات ہوئی۔ 
یہ واقعہ ہمارا لیے درس عبرت ہے کہ اگر ہم موقع رہتے ہوئے خرچ نہیں کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے خرچ کرنے کی توفیق ، حتیٰ کہ راستے تک بند کردیں گے اور ناکامی ہماری مقدر بن جائے گی۔ اس لیے آئیے نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس واقعہ سے عبرت لیں اور اس مقدس مہینے میں ہر روز کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کا معمول بنائیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے 
محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
روزہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ گذشتہ امتوں میں بھی روزہ فرض کیا گیا تھا، البتہ اس کی صورت اور وقت بدلتا رہا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا طرز عمل بھی روزہ کے حوالے سے مختلف رہا ہے۔ چنانچہ(۱) حضرت نوح علیہ السلام: صوم دھر یعنی ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔(۲) حضرت داود علیہ السلام:ایک دن روزہ ایک دن افطار کیا کرتے تھے۔(۳) حضرت عیسی علیہ السلام:ایک دن روزہ اور ایک دن یا کئی دن افطار کیا کرتے تھے۔(۴) خاتم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وسلم:کبھی روزہ رکھا کرتے تھے اور کبھی افطار کیا کرتے تھے۔
آج جو ہم روزہ رکھتے ہیں، اس میں تین تبدیلیوں کے بعد اسے آسان بنایا گیا ہے ، جس کی تفصیل تفسیر ابن کثیرجلد ۲؍ میں آیت نمبر ۱۸۲ کے تحتبیان کی گئی ہے کہ نماز کی طرح روزہ میں بھی تین تبدیلیاں ہوئی ہیں:
اول یہ کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین دن اور یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب کتب علیکم الصیام کی آیت نازل ہوئی اور رمضان کا روزہ فرض ہوا تو ابتدائی حکم یہ تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دیدے۔پھر یہ آیت اتری کہ فمن شھد منکم الشھر، فلیصمہ ۔ اس آیت سے من چاہا روزہ کی اجازت ختم ہوگئی اور بغیر شرعی عذر کے روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ۔ یہ دوسری تبدیلی تھی اور تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ابتدا میں کھانا پینا اور عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا، لیکن سونے کے بعد جائز نہیں تھا۔ حضرت صرمہؓ دن بھر کام کرکے تھکے ہارے گھر آئے اور عشا کی نماز ادا کی اور نیند آگئی، کچھ کھانے پینے کا موقع نہیں ملا۔ دوسرے دن بغیر کھائے پیے روزہ رکھا تو حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت عمرؓ نے سونے کے بعد اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی اور پھر حضور ﷺ کے پاس حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے قصور کا اظہار کیا۔ ان حالات کے پیش نظر یہ آیت اتری کہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم ۔ اس آیت میں افطار کے وقت سے سحری ختم ہونے تک کھانے پینے اور جماع کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح روزہ میں تین تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ 
محترم بزرگو!
یہ روزہ ہمارے لیے ابتدائی حکم کے مقابلے میں کئی سہولتوں کے ساتھ فرض کیا گیا ہے ۔ یہ روزہ سہولت سے لبریز ہے ۔ تصور کیجیے کہ اگر دوسری تبدیلی نہیں ہوئی ہوتی، تو روزہ کتنا پرمشقت ہوتا۔ اب جب کہ ان تین تبدیلیوں کے بعد روزہ آسان کردیا گیا ہے، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم پورا روزہ رکھیں اور ہمارا ایک روزہ بھی چھوٹنے نہ پائے ، کیوں کہ رمضان کے ایک دن کے چھٹے ہوئے روزہ کی قضا میں پوری زندگی بھی روزہ رکھا جائے تو بھی رمضان کی خصوصیات و کیفیات اس میں پیدا نہیں ہوں گی۔ اللہ پاک پروردگار ہمیں رمضان کے پورے روزہ رکھنے کی توفیق بخشے ، آمین۔