12 Dec 2017

سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی


سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ: 9871552408
Defence، حفاظت اور بچاو تمام مخلوقات کا نیچر ہے۔ ہر ایک مخلوق خواہ وہ انسان ہو یا جانور؛اپنا بچاو اور دفاع کے ہنر سے واقف ہوتی ہے، کوئی بھی خطرہ درپیش ہو، اس سے اپنے آپ کو بچانے اور محفوظ کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ آپ نے یہ منظر بارہا دیکھا ہوگا کہ چوہے بلی کی آہٹ سن کر ہی جان بچانے کے لیے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ کبھی آپ کا اور سانپ کا آمنا سامنا ہوجائے، تو جس طرح سانپ اپنی جان بچانے کے لیے راہ فرار تلاش کرتا ہے، اسی طرح آپ بھی اس کے خوف سے سر پر پاوں رکھ کر بھاگتے ہیں۔ المختصر اپنی جان کی حفاظت کرنا، ہر ایک مخلوق کا نیچر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی حفاظت کے آلات خود انھیں کے جسم کا ایک حصہ اور جز بنادیا ہے۔ آپ ہاتھی کو دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی حفاظت کے لیے طاقت اور سونڈ دے دیا ہے ، شیر کو خوں خوار پنجہ ، کتے کو نوکیلے دانت، سانپ اور بچھو کو زہر آلود ڈنک،گائے، بیل ، بھینس کو سینگ ، پرندوں کو بے قید ہوا میں اڑبھاگنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ ایک ہی مخلوق میں الگ الگ مقامات کے سرد و گرم موسم کے اعتبار سے جسم و جثہ میں جزوی تبدیلی ۔ اس کے بالمقابل انسان کو قدرت کاملہ نے اس طرح کا کوئی بھی ہتھیار اس کے جسم کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ انسان کے بدن پر پنکھ یا روئی دار کھال نہیں ہوتے کہ جسے وہ سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کرے۔ اس کے پاس خوں خوار پنجے اور نوکیلے دانت بھی نہیں ہیں کہ ان سے اپنے تحفظ کا کام لے اور نہ ہی ہاتھی کی طرح سونڈ، گائے کی طرح سینگ ہیں کہ انھیں بطور اوزار کام میں لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کے مقابلے میں انسان کو عقلی سلیم عنایت فرمادی ہے ، جسے وہ استعمال کرکے ہاتھی سے زیادہ طاقت ور، خوں خوار پنجوں سے زیادہ تیز، نوکیلے دانت سے زیادہ نوکیلے ہتھیار اور زہر آلود ڈنک سے زیادہ خطرناک زہر تیار کرکے اپنی حفاظت کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا طریقہ کار یکسر مختلف ہوتا ہے۔
آفتیں تین طرح کی ہوتی ہیں: (۱) آفات سماوی۔ (۲) آفات انسانی۔ (۳) آفات شیطانی۔ انسانوں کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، وہ صرف پہلی دونوں آفتوں کی شکار ہوتی ہیں۔ تیسری قسم یعنی آفات شیطانی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی لیے آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی کتے ، بلی یا گائے بیل پر بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ آفت شیطانی کی زد میں صرف حضرت انسان ہی آتے ہیں، ساتھ ہی انسان آفات سماوی اور آفات انسانی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ 
تینوں آفتوں سے بچنے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور ہتھیار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آفت و مصیبت سے تحفظ کے وقت دوسری آفت سے بچاو کے ہتھیار کام آجاتے ہیں، لیکن کچھ آفتیں ایسی بھی ہیں، جہاں دوسرے ہتھیاربالکل بھی کام نہیں آتے، اس سے بچاو کے لیے مخصوص ہتھیار ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ آئیے ذیل کی سطروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ تینوں قسم کی آفتوں کے لیے کیا کیا ہتھیار ہیں۔
طوفان، آندھی، سیلاب، زلزلہ؛ آفات سماوی ہیں، ان سے بلا استثنا سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں۔ زہریلے بم پھوڑ دینا، فسادات برپا کرنا، ایک قوم کا دوسری قوم سے برسرپیکار ہونا، ناحق کسی کو مار ڈالنا، چوری ، گالم گلوچ اور اس قسم کی دیگر حرکتیں آفات انسانی کی مثالیں ہیں۔ ان آفتوں میں سے بعض سے تو انسان جانور سمیت سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں، جس کی مثالیں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بم ہیں۔ اس بم کے گرانے کے بیسیوں سال بعد بھی نئی نسل اس کے مہلک اثرات سے متاثر ہوتی رہی اور وہ گونگے، بہرے اور لنگڑے پیدا ہوتی رہی۔ درج بالا دونوں آفتوں سے حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سلیم کا استعمال کرے اور ان آفتوں کے اسباب پر غور کرکے، اپنے اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا سامان فراہم کرے۔ مثال کے طور پر بار بار سیلاب آجاتا ہے ، تو اس سے تحفظ کے لیے پانی کے سرچشمہ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے، وہاں باندھ لگائے اور اس قسم کی جو بھی تدبیریں ہیں وہ اختیار کی جائیں۔ اسی طرح آفات انسانی کے طور پر بار بار دو ملکوں میں جنگ کے خطرات منڈلاتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو معاہدہ امن پر مجبور کیا جائے۔ المختصر انسانی حکمت عملی کے ذریعے اس قسم کی مصیبتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔البتہ تیسری قسم کی جو آفت ہے، اس سے بچنے کے لیے کوئی بھی انسان کا مصنوعی ہتھیار کارگر نہیں ہوتا۔ اس سے حفاظت کے لیے ایک دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر کسی پر شیطان سوار ہوجاتا ہے، تو آپ یہ بتائیے کہ اسے چاقو، ڈنڈا یا ایٹم بم دکھانے سے وہ بھاگ جاتا ہے؟ ۔ بالکل نہیں بھاگتا؛ بلکہ اسے بھگانے کے لیے دوسری تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ وہ تدابیر پیش خدمت ہیں۔
کلام پاک میں ہے کہ 
لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونہُ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ ( سورۃ الرعد، آیۃ: ۱۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو بحکم الٰہی اس کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں۔ 
جس طرح بندوں کے اعمال پر نگہبانی کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں؛ ایک دائیں، دوسرا بائیں۔ دایاں والا نیکیاں لکھتا ہے اور بایاں والا برے اعمال رقم کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کو ہر قسم کی آفتوں سے بچانے کے لیے ہر وقت دو فرشتے ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک فرشتہ سامنے ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ اس کے پیچھے۔ اس طرح گویاہمہ وقت چار فرشتے انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر یہ فرشتے انسانوں کی حفاظت نہ کریں، تو شیطان انسان کا اس قدر دشمن ہیں کہ فوری طور پر اس کو ہلاک کردیں۔ 
آج حادثات اور آفتوں کا دور دورہ ہے۔ اگر ایک شخص صبح کا گھر سے نکلا ہوا، شام کو صحیح سلامت گھر واپس آجائے، تو اسے سجدہ شکر بجالانا چاہیے۔ ان میں جہاں آفات سماوی اور آفات انسانی ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں، وہیں آفات شیطانی بھی تعاقب کرتی رہتی ہیں، اول الذکر دونوں آفتوں سے تحفظ کا طریقہ آپ نے پڑھ لیا ، شیطانی آفتوں سے حفاظت کا طریقہ چوں کہ ان طریقوں سے مختلف ہے ، اس لیے یہاں پر احادیث کی روشنی میں چند تدبیریں لکھی جارہی ہیں۔
یوں تو احادیث میں آفتوں اور شیطانی اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے دعائیں موجود ہیں، لیکن بہت ہی مختصر اور جامع دو تین دعائیں یہ ہیں:
۱۔ ہر صبح و شام فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں کہ 
بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء ، وھو السمیع العلیم۔
۲۔ تین تین مرتبہ سورہ اخلاص اور سورہ معوذتین۔
پابندی کے ساتھ اگر یہی دونوں اعمال کیے جائیں، تو نبی اکرم ﷺ کی زبانی یہ وعدہ ہے کہ اسے جہاں آفات سماوی و انسانی سے نجات مل جائے گی، وہیں شیطان بھی اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہمیں سرور کائنات کے ارشادات پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے، آمین۔

7 Dec 2017

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا، چیزوں کی شناخت ان کی ضد والی چیز سے ہوتی ہے۔ شناخت میں اس کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے مد مقابل کی چیز سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں روشنی کی صحیح قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب ہم کبھی کسی سخت تاریکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس اصول سے ایک اور اصول وابستہ ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ علاج بالضد، یعنی کسی چیز کا علاج اس کے اپوزٹ والی چیز سے کیا جاتا ہے، مثلا یہ اگر آپ کو سردی لگتی ہے تو گرمی پیدا کرنے والے سامان کا استعمال کرتے ہیں ، جب گرمی کا موسم آتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے اے سی، کولر، فرج وغیرہ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول فطری تقاضوں کی ترجمانی پر قائم ہے، اور مذہب اسلام چوں کہ دین فطرت کہلاتا ہے، اس لیے اس اصول کی کرشمہ سازیاں ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں اس کی مثا لیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسان کے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اچھے اور ثواب پیدا کرنے والے اعمال۔ دوسرے برے اور گناہ والے اعمال۔ ان دونوں عملوں کی اپنے اپنے مزاج کے اعتبارسے الگ الگ خصوصیات ہیں۔ نیک اعمال کا مزاج نرم اور سرد ہے ، جب کہ برے اعمال کا مزاج گرم اور ہیجان خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان اعمال کا تذہ کرتے وقت ایسا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے،جن سے ان کے مزاج کی طرف واضح اشارہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(النساء، آیۃ: ۱۰، پ۴)
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم میں جلیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مال حرام گرچہ دنیا میں کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہو، عالم آخرت میں اس کی تاثیر اور اس کا مزاج گرم ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ صبر کا مزاج اس دنیا میں بہت کڑوا ہے، لیکن آخرت میں یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
وَالصَّدَقَۃ تُطْفیءُ الْخَطیءۃکمَا یُطْفیءُ الْمَاءُ النَّارَ(مسند الشھاب القضاعی،ص۹۵) صدقہ گناہ کو ایسے ٹھندا کردیتا ہے جیسے کہ پانی آگو کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ 
إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے،لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کرلے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ میں دو خاص وصف ہیں : ایک گرمی اور دوسرا علو، یعنی اوپر چڑھنا۔ اس حدیث شریف کی رو سے غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اس لیے غصہ کا مزاج آگ ہے۔ اسی لیے غصہ ہونے کو محاورہ میں آگ بگولہ ہونا بولا جاتا ہے ۔ تو جس طرح آگ کی دو خاص وصف ہیں اسی طرح اس مزاج کے حامل غصہ میں بھی یہ دونوں وصف ہوں گے، یعنی گرمی اور علو۔ گرمی کے لحاظ سے نبی اکرم ﷺ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ۔ اور علو کے لیے یہ فرمایا کہ إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، تو اگر وہ کھڑا تھا تو بیٹھ جائے، غصہ ختم ہوجائے گا، لیکن اگر بیٹھنے سے غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے معمول میں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں ثنا کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا، کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ( صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب التعوذ من شر الفتن و غیرھا)
ائے اللہ ہمارے گناہوں کو برف اور پانی سے اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح دھو دے جس طرح کہ میلے سپید کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔
جس طرح اعمال کی یہ دو خاصیتیں ہیں، اسی طرح اعمال کے درجے بھی دو ہیں: ایک ہے کبیرہ،دوسرا ہے صغیرہ۔ کبیرہ کے معنی ہے بڑا۔ اور صغیرہ کے معنی ہے چھوٹا۔ اس کو اعمال کے ساتھ جوڑ کر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال صغیرہ ہیں اور یہ اعمال کبیرہ ہیں۔ اسی طرح گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ بھی بولا جاتا ہے۔ 
صغیرہ گناہ نیک اعمال کرنے سے خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پرآپ نے ظہر کی نماز پڑھی، اس کے بعد دنیوی کاموں میں مصروف ہوگئے، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، بات چیت ہوئی، اس دوران کچھ بھول چوک ہوگئی، اور صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا۔ پھر عصر کا وقت آیا، تو آپ نے مسجد کا رخ کیا، اچھی طرح سے وضو کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی، تو اس دوران جتنے بھی چھوٹے چھوٹے گناہ ہوئے تھے ، وہ سب معاف ہوگئے۔ لیکن اگر کبیرہ گناہ ہوجائے، تو پھروہ آٹومیٹک معاف نہیں ہوتے، اس کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور توبہ بھی اس عزم و عمل کے ساتھ مشروط ہے کہ اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد شامل ہو۔ کیوں کہ اگر دل میں یہ چور چھپا ہے کہ پھر کبیرہ گناہ ہوجائے گا، تو پھر توبہ کر کے معاف کرالیں گے، تو اس کا نام توبہ نہیں ہے۔ گرچہ دوبارہ کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے، تو دوبارہ توبہ کرنے سے معافی مل جاتی ہے۔
المختصر برے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ شریعت مطہرہ کی یہ تقسیم گناہوں کی کیفیت پر مبنی ہے ، لیکن اس کے بالمقابل گناہوں کی ایک تقسیم ہم نے بھی کر رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مولوی سے صغیرہ گناہ بھی ہوجائے، تو وہ ہماری نگاہ میں گناہ کبیرہ سے بڑا گناہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے وہ اتنا زیادہ سماجی لعن طعن کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فساد برپر کردینے والا اجتماعی جرم کردیا ہے۔ گرچہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ بے شک گناہ ہے، اور اس سے اجتناب بہرحال لازم ہے، لیکن اگر سماج اور عام طبقہ بڑے بڑے گناہ کے اعمال کریں، تو وہ اپنے لیے بھی اور سماج کی نگاہ میں بھی کوئی گناہ تک نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اگر سماج کا ایک عام فرد سینما ہال سے نکلے ، تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، فلم کے اثرات کو اپنی زندگی میں اتار لے، تو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر ایک مولوی محض سینماہال کے پاس بس کے انتظار میں کھڑا رہے، تو یہی شخص یا اس جیسا شخص یہ ٹوکنے کا سماجی حق رکھتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اور سینما گھر کے پاس؟۔ عام افراد سنت نبوی ﷺ کو ہر روز چہرے سے مٹانے کی کوشش کریں، تو کوئی عیب نہیں؛ لیکن ایک مولوی اگر تزئین کاری کرلے، تو پورے سماج کے چہرے پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
بے شک ہم عوام اور امت کے اس نیک جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ اپنے دینی قائد علمائے کرام کو منہج نبوی اور سنت طریقہ سے ایک انچ بھی ہٹا ہوا دیکھنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ہٹ جائیں ، تو وہ گناہ ، گناہ ہی نہیں ہوگا!۔ اسے توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟؟؟!!!۔

3 Dec 2017

رحلت نبوی ﷺ


رحلت نبوی ﷺ 
بارہ وفات نبوی ؑ پر ایک خصوصی تحریر
تحریر: محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
آج قلم کی روح بے چین و مضطرب ہے، کاغذ کا دل گریہ کناں و ماتم آسا ہے ، فکر کی لہریں درماندہ و افسردہ ہیں اور خامہ فرسانمدیدہ و دل گرفتہ ہے، اس کے آئینہ و فکر و خیال میں ماضی کے کچھ نقوش ابھرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں ،عشق محو حیرت ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اور کیوں کر ہے؟ قلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو وفراق کی خامہ فرسائی کر رہا ہے ، دل قرطاس کیا اس لیے ماتم زار ہے کہ حکایت برق و خرمن کے کرب و کسک سے بے چین ہو اٹھا ہے؟یا پھر تاریخ کے سینے میں محفوظ کچھ قیمتی جاں گسل یادیں اسے گریہ و بکا پر مجبور کر رہی ہیں؟ جی ہاں اس کی وجہ وہی تاریخ کی قیمتی یادیں ہیں، جو ہر صاحب خردو ذی شعور اور مدعی حب آں حضور کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہی ہیں۔
راجح تاریخ کے مطابق سرکار دو جہاں نبی اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش ۹؍ ربیع الاول ہے ، جب کہ رحلت نبوی علیہ السلام کی تاریخ ۱۲ ؍ ربیع الاول ہے ۔خود امام اہل سنت فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت نور اللہ مرقدہ نے نطق الہلال بارخ ولادۃ الحبیب والوصال میں صفحہ نمبر ۴ پر دلائل کے ساتھ تاریخ پیدائش ۸؍ ربیع الاول اور یوم وفات ۱۲؍ ربیع الاول تحریر فرمایا ہے۔ اور ہمارے یہاں ۱۲؍ تاریخ ، بارہ وفات سے ہی مشہور و معروف ہے۔ آئیے تاریخ سے معلوم کرتے ہیں کہ اس ۱۲؍ تاریخ کو اس کائنات رنگ و بو میں کونسا حادثہ دلدوز پیش آیا تھا کہ اس کی کسک و اضطراب سے دنیا آج بھی آہ فغا کر رہی ہے۔ 
جب سورہ فتح نازل ہوئی تو سرکار دوجہاں ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پالیا کہ اب رحلت قریب آگئی ہے۔اس کا اشارہ خود سرکار نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ دیا ،چنانچہ میدان عرفات کے خطبہ حج میں حمد و صلاۃ کے بعد پہلا درد انگیز یہی جملہ ارشادفرمایا کہ ائے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ حج سے واپسی کے بعد خداوند متعال کے دیدار کے شوق میں روز بروزاضافہ اور صبح و شام تسبیح و تحمید اور ذکرو اذکار میں انہماک بڑھتا گیا ۔ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان سے ارشاد فرمایا کہ بیٹی ! اب میری رحلت کا وقت قریب معلوم ہوتا ہے۔ایک دن شہدائے احد کی مردانہ وارقربانیوں کا خیال آیا تو گنج شہیداں تشریف لے گئے اور ان کے لیے بڑے درد و گداز سے دعائیں کیں اور انھیں اس طر ح الوداع کہا جس طرح کہ آخری ملاقات پر الوداع کہاجاتا ہے۔ان ایام میں خیال زیادہ تر گزرے ہوئے نیازمندوں کی طرف مائل رہتا تھا ،چنانچہ ایک رات آسودگان بقیع کا خیال آگیا ،تو آدھی رات کو اٹھ کر وہاں تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ انا بکم سلاحقون کہ اب جلد تمھارے ساتھ شامل ہورہا ہوں۔
بیماری کی ابتدا
۲۹؍ صفر بروز سوموار ایک جنازے سے تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں ہی سر کے درد سے بیماری کا آغاز ہوگیا ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ سر مبارک پر رومال باندھا ہوا تھا وہ اس قدر جل رہا رتھا کہ ہاتھ کو برداشت نہ ہوتی تھی۔ مرض بڑھتا گیا اس واسطے ازواج مطہرات نے مرضی سرکار کے مطابق آپ کا مستقل قیام حجرہ عائشہ میں کردیا ۔ ضعف اس قدر طاری تھا کہ حجرہ عائشہ تک خود قدموں سے چل کر نہ جاسکے ۔ حضرت علی اور حضرت فضل ابن عباسؓ نے آپ کے دونوں بازو تھام کر بڑی مشکل سے حجرہ عائشہ تک پہنچایا۔حضرت عائشہؓ نے دعا پڑھ کر جسم اطہر پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللھم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلیٰ ائے اللہ معافی اور اپنی رفاقت عطا فرما۔
وفات سے پانچ رو ز پہلے
وفات اقدس کے پانچ روز قبل بروز بدھ پتھر کے ایک ٹب میں بیٹھ گئے اور سر اقدس پر پانی کی سات مشکیں ڈالوائیں ۔ جس سے مزاج اقدس میں تھوڑی خنکی اور تسکین ہوئی تو مسجد نبوی تشریف لے گئے اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں آپ نے یہود و نصاریٰ کی طرح انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا و ما فیہا کو قبول کرے یا آخرت کو ترجیح دے، مگر اس نے آخرت کو قبول کیا۔ یہ سن کر رمز شناس نبوت حضرت ابو بکر صدیق ؓ زاروقطار رونے لگے، جس پر حاضرین نے انھیں تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکار ایک شخص کا واقعہ بیان کر رہے ہیں، اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ حضرت ابوبکر کی یہ حالت دیکھ کرخیال اشرف سے ارشاد ہوا کہ میں سب سے زیادہ جس شخص کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں وہ ابوبکر ہیں۔اگر میں کسی شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کرتا تو وہ ابوبکر ہوتے، لیکن اب رشتہ اسلام میرے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مسجد کے رخ پر سوائے دریچہ ابوبکر کے سب کو بند کرنے کا حکم دیا۔علالت نبوی پر انصار کو روتے ہوئے دیکھا تو انصار کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی وصیت فرمائی۔پھر حضرت اسامہ بن زید کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ حلال وحرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا میں نے وہی چیز حلال یا حرام کیا ہے جسے قرآن اور خدا نے حلال یا حرام قرار دیا ہے۔پھر اپنے اہل بیت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ائے رسول کی بیٹی فاطمہ اور ائے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ ! خدا کے ہاں کے لیے کچھ کرلو میں تمھیں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا ۔
وفات سے چار روز پہلے
بروز جمعرات حضرت عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمان کو بلا لیجیے اور دوات کاغذ لے آئیے میں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوں گے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے سرور کائنات کی شدت مرض کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی حالت میں تکلیف دینا مناسب نہیں ہے ،اب تکمیل دین کا کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہا جس میں قرآن کافی نہ ہو۔ بعض دوسرے صحابہ نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا اور شور شرابہ ہونے لگا جس پرحضور نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو ، میں جس مقام میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو۔پھر تین وصیتیں فرمائیں کہ کوئی مشرک عرب میں نہ رہے،سفیروں اور وفود کی بدستور عزت و مہمانی کی جائے اور تیسری قرآن کے بارے میں کچھ تھا جو راوی کو یاد نہ رہا۔
وفات سے تین روز پہلے
جمعہ کے دن مغرب کی نماز پڑھائی ۔ پھر غنودگی طاری ہوگئی ۔ عشا کے وقت آنکھ کھلی تو دریافت فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی؟صحابہ نے عرض کیا کہ سب لوگ حضور ﷺ کے منتظر ہیں۔ لگن میں پانی بھرواکر غسل فرمایا اور ہمت کرکے اٹھے مگر غش آگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آنکھ کھلی تو ارشاد فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی ہے ؟ صحابہ نے وہی جواب دیا کہ لوگ سرور کونین کی امامت کے منتظر ہیں۔اس مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی مگر بے ہوش ہوگئے۔ جب تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا گیا اور اٹھنے پر غشی آگئی ، تو افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھادیں۔حضرت ابوبکر بہت رقیق القلب تھے، اس لیے انھوں نے حضرت عمرؓ کو آگے بڑھادیا ۔ مگر حضور نے تین مرتبہ منع فرمایا اور فرمایا کہ نماز ابوبکر ہی پڑھائیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔
وفات سے دو روز پہلے
بروز سنیچر حضرت صدیقؓ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ سرور کائنات حضرات علی وعباسؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے ۔ نمازی نہایت بے قراری سے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صدیق بھی مصلیٰ سے پیچھے ہٹے ، مگر حضور نے دست اقدس سے اشارہ کیا کہ پیچھے مت ہٹو ، پھر حضور ، حضرت صدیق کے برابر بیٹھ گئے ، اب حضرت صدیق سرکار کی اقتدا کررہے تھے اور مسلمان صدیق اکبر کی اقتدا میں تھے۔ یہ پاک نماز اسی طرح مکمل ہوئی ۔ بعد ازاں حضور حجرہ حضرت عائشہ میں تشریف لے آئے۔
وفات سے ایک روز پہلے
اتوار کے دن صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کردیا جو ۴۰ کی تعداد میں تھے۔ پھر اثاث البیت کا جائزہ لیا تو صرف سات دینار تھے، جنھیں غریبوں میں تقسیم کرادیایہاں تک کہ آخری رات کو کاشانہ نبوی میں چراغ جلانے کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا۔ گھر میں کچھ ہتھیار تھے ، انھیں مسلمانوں کو ہبہ کردیا گیا ۔کمزوری لمحہ لمحہ بڑھ رہی تھی، حتی کہ غشی آگئی جس پر دردمندوں نے آپ کو دوا پلادی، افاقہ کے بعد جب احساس ہوا تو فرمایا اب یہی دوا ان پلانے والوں کو پلائی جائے، کیوں کہ دیدار خداوندی کا اشتیاق اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش تھی اور نہ ہی دوا کی۔
یوم رحلت
۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار مطابق مئی یا جون ۶۲۳ ء مزاج اقدس میں کسی قدر سکون تھا نماز فجر ادا کی جارہی تھی کہ سرکار نے مسجد اور کمرہ کا درمیانی پردہ سرکادیا، چشم اقدس نے دیکھا کہ لوگ رکوع و سجود میں مصروف ہیں، اس پاک منظر کو دیکھ کر جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ آں حضور مسجد میں تشریف لارہے ہیں ، نمازی بے اختیار ہونے لگے اور نمازیں ٹوٹنے لگیں۔ حضرت صدیق امامت کررہے تھے وہ پیچھے ہٹنے لگے، مگر حضور نے اشارہ اقدس سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھلاکر پھر کمرے کا پردہ ڈال دیا۔ طبیعت کا حال یہ تھا کہ غشی کے ایک بادل آتے تھے اور جاتے تھے ۔ ان تکلیفوں کو دیکھ حضرت فاطمہ رونے لگیں ۔ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ بیٹی مت رو۔میں دنیا سے رخصت ہوجاوں تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا ۔ پھر آپ نے ان کے کان میں کہا کہ بیٹی میں اس دنیا کو چھوڑ کر جارہا ہوں ، جس پر حضرت فاطمہ بے اختیار رونے لگیں۔ پھر فرمایا کہ فاطمہ!میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی، جس پر فاطمہؓ بے اختیار ہنس دیں۔حضرت حسن و حسین بہت غمگین ہورہے تھے انھیں پاس بلایا ، دونوں کو چوما اور ان کے احترام کی وصیت فرمائی ۔ پھر ازواج مطہرات کو طلب فرمایا اور انھیں بھی نصیحتیں کیں۔ پھر حضرت علی کو بلوایا اور انھیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ الصلاۃ الصلاۃ و ما ملکت ایمانکم، نماز، نماز اور غلام باندی۔رفتہ رفتہ حالت نازک ہوتی جارہی تھی کہ زبان اقدس سے ارشاد ہوا کہ لاالٰہ الا اللہ ان للموت سکرات۔کبھی ارشاد ہو تا کہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ۔ آپ کبھی چادر اقدس چہرے پر ڈالتے تھے اور کبھی ہٹا دیتے تھے کہ دفعۃ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء اور ولیوں کی قبروں کو سجد گاہ بنالیا ۔ اسی دوران حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر ایک تازہ مسواک لے کر آئے ، جسے دیکھ کر حضور نے مسواک پر نظر جمادی ، جس سے حضرت صدیقہ نے اشارہ سمجھ لیا اور دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی ۔ آپ نے بالکل تندرست کی طرح مسواک فرمایا ۔ پھریک لخت ہاتھ اونچا کیا گویا کہ کہیں تشریف لے جائیں گے اور زبان اقدس سے نکلا کہ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ اب اور کوئی نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے ، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ ربیع الاول کی ۱۲ کی تاریخ سوموار کا دن اور چاشت کا وقت تھا عمر مبارک قمری تاریخ کے اعتبار سے ۶۳؍ سال ہوئی ۔
تجہیز و تکفین
منگل کو تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوافضل بن عباس اور اسامہ بن زید پردہ تان کر کھڑے ہوئے۔ اوس بن خولی انصاریؓ پانی کا گھڑا بھر کر لائے ۔ حضرت عباس اور ان کے صاحبزدے جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے تھے اورحضرت اسامہ اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی غسل دے رہے تھے۔تین سوتی کپڑوں کا کفن دیا گیا ۔ حضرت صدیق اکبر کی رائے کے مطابق حجرہ عائشہ میں قبر کھودی گئی۔ حضرت طلحہ نے لحدی قبر کھودی ۔ زمین میں نمی تھی اس لیے بستر نبوی کو قبر میں بچھا دیا گیا ۔ جب جنازہ تیار ہوگیا تو اہل ایمان نماز کے لیے ٹوٹ پڑے اور سب نے الگ الگ نماز پڑھی۔ جنازہ چوں کہ کمرے میں تھا اس لیے نماز کا سلسلہ تقریبا ۳۲؍ گھنٹہ جاری رہا۔ اس لیے تدفین بروز بدھ رات کو عمل میں آئی ۔ جسم اطہر کو حضرات علی، فضل بن عباس، اسامہ بن زید اور حضرت عبدالرحمان بن عوف نے قبر میں اتارا اور اس باعث کون و مکاں ہستی کو ہمیشہ کے لیے اہل دنیا کی نگاہ سے اوجھل کردیا گیا ۔