حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سلام ، آپ کے نام
کیا آپ اس سلام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں؟
تحریر: محمد یاسین قاسمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمعیۃ علماء ہند
۲۷؍ رجب کو ہم شب معراج مناتے ہوئے جلسہ جلوس کرتے ہیں، نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، روزوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کونڈے بھی بانٹے جاتے ہیں، لیکن اس سفر مبارک میں دین حنیفی کے پیشوا سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرورکائنات ﷺ کے توسط سے ہمارے لیے جو پیغام بھجوایا ہے، کیا کبھی ہم نے پیغام پر عمل کرنے کی کوشش کی؟
اب تک ہمارا طرز عمل تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس رسوم و گناہ کے جتنے کام ہوسکتے تھے، وہ سب ہم نے معراج کے مقدس نام سے کیا، آئیے دیکھتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے ، اور ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، تاکہ اس کی روشنی میں ہم رسوم و رواج سے باز آجائیں اور واقعہ معراج کے صحیح پیغام پر عمل پیرا رہیں۔

اب تک ہمارا طرز عمل تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس رسوم و گناہ کے جتنے کام ہوسکتے تھے، وہ سب ہم نے معراج کے مقدس نام سے کیا، آئیے دیکھتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے ، اور ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، تاکہ اس کی روشنی میں ہم رسوم و رواج سے باز آجائیں اور واقعہ معراج کے صحیح پیغام پر عمل پیرا رہیں۔
سیرت طیبہ کی مدنی زندگی کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کومکہ سے فلسطین میں واقع مسجد اقصیٰ،پھر یہاں سے ساتوں آسمانوں، بعد ازاں سدرۃ المنتہیٰ اور جنت و جہنم کی سیر کرائی گئی۔ تاریخ سیرت میں اس واقعہ کو معراج کہاجاتا ہے۔ الگ الگ آسمانوں پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے آپ ﷺکی ملاقات ہوئی، اور ہر ایک کے ساتھ الگ الگ گفتگو ہوئی ۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر ساتویں آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے دستک دی، توہر ایک آسمان کے دربان کی طرح اس آسمان کے دربان نے بھی یہی سوال کیا کہ آپ کون ہیں؟ حسب سابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنا نام بتایا۔ دربان نے دوسرا سوال کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہے؟ حضرت جبرئیل نے جواب دیا کہ میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا کہ کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ہاں میں جواب دیا۔ آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ آپﷺ آگے بڑھے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سفید ریش والے شخص بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، جن کے سر کے بال بھی سفید ہوچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیے ،تو آپ ﷺنے ان کو سلام کہا: انہوں نے آپ ﷺکے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہتے ہوئے کہاکہ: صالح بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ائے محمد! یہ آپ کا اور آپ کی امت کا عالی مرتبت مقام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس پر یہ آیت تلاوت کی کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں، جنھوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم ) اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے‘‘۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ائے محمد ! اپنی امت کو میرا سلام کہنا ۔ اور یہ بھی کہناکہ جنت عمدہ مٹی والی، میٹھے پانی والی ہے اور نرم زمین والی ہے اور جنت چٹیل میدان ہے جس کی شجرکاری (یہ کلمات ہیں(سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ) ہیں۔ پھر آپ ﷺ بیت معمور کے اندر داخل ہوئے اور اس میں نماز پڑھی۔
سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ انھوں نے امت محمدیہ کو یعنی ہم سب کو سید کائنات فخر موجودات نبی آخر الزماں ﷺ کی زبانی سلام بھجوایا ہے۔ ہم لوگ جب آپس میں سلام کرتے ہیں تو سنت سلام کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے۔ سنت کا جواب واجب کیوں ہوجاتا ہے یہ ایک حکمت پر مبنی بحث ہے جس کا اشارہ ایک دوسرے مضمون میں کیا جاچکا ہے۔ لیکن جب اس طرح کا سلام ہم تک پہنچتا ہے ، گرچہ اس کا جواب دینا واجب نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی جواب دے دے تو یہ ایک مستحسن عمل ہے، لیکن سلام کے پیغام کا جو مقصد ہے، اس کے تقاضے پر عمل کرنا ہم سب کی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔
امت محمدیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ممنون ہے
انسانی تقاضے کا فطری جذبہ ہے کہ جب کوئی اس پر احسان کرتا ہے، تو وہ شخص اس کا ممدوح اور یہ شخص اس کا ممنون ہوجاتا ہے۔اگر کسی انسان کو سفر درپیش ہوتا ہے ، تو وہ عارضی ٹھکانے کا بندوبست کرتا ہے ۔ اس عارضی منزل کے متعلق کوئی جان کار شخص یہ بتلادیتا ہے کہ یہ چیز وہاں نہیں ہوگی، اس کی تیاری آپ کو یہیں سے کرنی ہوگی، تو ہم اس کا انتظام کرکے چلتے ہیں اور اس شخص کا یہ کہتے ہوئے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ فلاں صاحب نے یہ چیز ہم کو بتلائی تھی ، اس لیے ہم نے انتظام کرلیا تھا، اور اس وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہورہی ہے۔جب عارضی ٹھکانے کے متعلق ہمارا جذبہ ایسا ہوتا ہے تو اگر کوئی شخص ہمیں ہمارے دائمی زندگی کے ٹھکانے کے متعلق پہلے سے آگاہ کرے، توغور کیجیے کہ ہمیں ان کا کتنا بڑا احسان مند ہونا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں ہمارے دائمی مکان کے متعلق آگاہ کردیا ہے کہ پوری جنت ایک چٹیل میدان ہے اور اس میں ہمیں خود ہی شجر کاری کرنی ہوگی، تب جاکے وہ ہری بھری ہوگی اور اس کی شجر کاری کا طریقہ بھی بتلا دیا کہ جنت میں شجر کاری کا طریقہ یہ ہے کہ ہم درج بالا کلمات کا ورد کریں۔اور یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغامِ سلام پر عمل کرنے کا طریقہ ہے۔
ورد سے شجر کاری ممکن ہے؟
دور جدید کی ٹکنالوجی کی ترقیات نے اس خارق عادت سسٹم کو سمجھنا اور سمجھانا بالکل آسان کردیا ہے۔ آج ہم دور سے بیٹھے ایک بٹن دباتے ہیں اور دور دراز مقام پر بہت بڑی مشین حرکت میں آجاتی ہے۔ دبانا بھی قدیم سسٹم ہوچکا ہے، اب تو صرف بولنا کافی ہوجاتا ہے۔ کچھ معلومات ایسی بھی ہیں کہ اب بولنے کی زحمت کی بھی ضروررت نہیں ، صرف آنکھوں سے اشارہ کافی ہے۔ ہم آنکھ سے اشارہ کریں گے اور ہمارے سامنے ہمارا کام تیار ملے گا۔ جب انسانی تخلیق سے یہ سب کچھ ممکن ہورہا ہے، تو یہ بالکل بھی خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا کہ اخروی زندگی کی شجر کاری کا اشاراتی کوڈ کلمات کا ورد کیوں کر ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس پیغامِ سلام پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، اللھم آمین، یا رب۔
مآخذ و مصادر
(۱) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَرفُوعاً: لَقِیتُ إِبْرَاھیمَ لَیلَۃَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! أَقْرِءْ أُمَّتَکَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْھُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیبَۃ التُّرْبَۃِ عَذْبَۃُ الْمَاءِ وَأَنّھَا قِیعَانٌ وَأَنَّ غِرَاسَھَا: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ).(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّسْبِیحِ وَالتّکْبِیرِ وَالتَّھْلِیلِ وَالتَّحْمِیدِ)
عبداللہ بن مسعود سے مرفوعا مروی ہے کہ: معراج کی رات میں ابراہیم سے ملا تو انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت عمدہ مٹی والی، میٹھے پانی والی ہے اور نرم زمین والی ہے اور جنت چٹیل میدان ہے جس کی شجرکاری (یہ کلمات ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ) ہیں۔
(۲) ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ السَّابِعَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ، فَقِیلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیلُ، قِیلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیہِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَیہِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِشَیخٍ أَبْیضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیۃِ، وَإِذَا ھوَ مُسْتَنِدٌ إِلَی الْبَیتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا ھُوَ یدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا یَعُودُونَ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: مَنْ ھَذَا یا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ھَذَا أَبُوکَ إِبْرَاھِیمُ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَیرٍ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ ھَذِہِ مَنْزِلَتُکَ وَمَنْزِلۃُ أُمَّتِکَ ثُمَّ تَلیٰ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ أَوْلیٰ النَّاسِ بِإِبْرَاھِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَھَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاللَّہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِینَ} آل عمران: 68) . فَدَخَلْتُ إِلَی الْبَیتِ الْمَعْمُورِ فَصَلّیتُ فِیہِ، (مسند الحارث،بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث،کتاب الایمان، باب ماجاء فی الاسراء)
بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے (عبادت اور طواف کے لیے)داخل ہوتے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں اور پھر باہر نکل جاتے ہیں اور پھر ان کے علاوہ فرشتوں کا دوسرا گروہ عبادت و طواف کے لیے آتا ہے۔ اور ایک مرتبہ جو فرشتہ داخل ہوتاہے، اس کو پھر دوبارہ کبھی موقع نہیں ملتا۔ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا اور کوئی شمار نہیں کرسکتا۔
(۳) گوگل لون سسٹم میں سارے کام کے لیے صرف آنکھ کا ایک اشارہ کافی ہوگا۔ مزید معلومات کے لیے اس سسٹم کا مطالعہ کریں۔